• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف ایٹمی جنگ کی دھمکی دےدی ہے۔حال ہی میں روسی صدر نے کریملن سے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر کسی نے بھی روس کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو اس کو ایسے عبرتناک حالات سے گزرنا ہوگا جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

دُوسری جانب یوکرین کی فوجوں نے تین روسی جرنیلوں کو ہلاک کر دیا ہے جو یوکرین میں مختلف خطّوں میں فوجوں کی کمان کر رہے تھے، دُوسرے یہ کہ جنگ روس کے صدر اور روسی عسکری ماہرین کی توقع سے زیادہ طویل ہوگئی ہے۔ روس کے کئی ٹینک تباہ ہو چکے ہیں۔ مغربی ممالک یوکرین کو خوفناک ہتھیار سمیت ہر طرح کی امداد دے رہے ہیں۔ ایسے میں روسیوں کی فرسٹریشن بڑھتی جا رہی ہے۔ روس پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ روس کے تمام بڑے شہروں میں صدر پیوٹن کی جنگی پالیسی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

روسی صدر کے ایٹمی حملے کی دھمکی کے جواب میں امریکانے اپنے پچاس ہزار امریکی میرینز پولینڈ میں اُتار دیئے ہیں۔ ترکی جو نیٹو کا رُکن ہے اس نے بحیرۂ اَسود میں روسی بحری لڑاکا جہازوں کو داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ روسی طیاروں نے اسرائیل کی ایک جنگی کشتی اور اس میں سوار ایک اسرائیلی کو ہلاک کر دیا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ کشتی یوکرین کو بحیرۂ اَسود میں اسلحہ پہنچا رہی تھی۔ 

برطانیہ نے اپنی دو ایٹمی آبدوزوں کو بحر اوقیانوس میں ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر نے روسی ایٹمی دھمکی پر بیان دیا کہ ہمارے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں روس نے اس پر سخت بیان دیا ہے جس پر یورپ میں روس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ طول پکڑ تی جا رہی ہے۔ 

روس نے یوکرین کے پانچ اہم شہروں پر قبضہ جما لیا ہے۔ روسی فوجوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ دارالخلافہ کیف کے اطراف روسی فوج کا محاصرہ ہے۔ یوکرین کے عوام جس قیامت خیز عتاب سے گزر رہے ہیں یہ انسانی اَلمیوں کی ایک طویل داستان خونچکاں ہے۔ خوراک، پینے کے پانی اور ایندھن کی کمی نے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہر ذی رُوح کی زندگی دُشوار ترین کر دی ہے۔

اس کے علاوہ وہ غیرملکی طلبہ جو وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے ان کا حال انتہائی خستہ ہے۔ ان میں بھارتی، پاکستانی، ترکش، مصری اور شمالی افریقی ممالک کے طلبہ شامل ہیں۔ بھارتی طلبہ زیادہ ہیں بتایا جاتا ہے کہ بیس ہزار سے ائد طلبہ کیف میں پھنسے ہوئے ہیں۔

روس نے اپنے جوہری اسلحہ سے لیس دستوں کو ہائی الرٹ کر دیا ہےا س خوفناک خبر سے پوری دُنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے بلکہ اس خوفناک خبر کے بعد عالمی سطح پر روس کا گراف اور گر گیا ہے، حالانکہ پڑوسی ملک بیلا روس میں روسی اور یوکرینی وفود کی بات چیت بھی چل رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ روس نے اس موقع پر دبائو بڑھانے کے لئے یہ خبر پبلک کی ہو مگر اس کا اُلٹا اَثر نظر آ رہا ہے۔ 

یوکرین مزید مظلوم اورروس مزید غاصب ہٹ دھرم قوت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ دُنیا روس کی مذمت کر رہی ہے۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا ،جوہری ہتھیار انسانیت پر بہت بڑا ملبہ ہے۔ یوکرین ایک بڑا ملک ہے جو چھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی مجموعی آبادی ساڑھے چار کروڑ کے لگ بھگ ہے، مجموعی آمدنی چار سو بلین ڈالر کے قریب اور سالانہ اوسط آمدنی ساڑھے چار ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

یوکرین پر زارِ روس اوراس سے قبل بھی روس کا تسلط قائم تھا۔ اندازہ کے مطابق روسی تسلط سات سو برس سے زائد عرصہ قائم رہا۔ دُوسری عالمی جنگ میں بھی یوکرین سابق سوویت یونین کا حصہ تھا اور فوج میں یوکرینین فوجی زیادہ تھے۔ دُوسری عالمی جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ دو لاکھ سے زائد روسی فوجی ہلاک ہوئے تھے ان میں زیادہ تعداد یوکرین کے سپاہیوں کی تھی۔ 1990ء میں یوکرینین نے تین لاکھ انسانوں پر مشتمل انسانی زنجیر بنائی تھی اور آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ 

انسانی المیے جنم لے رہے ہیں، خوراک، پینے کے پانی اور ایندھن کی کمی نے ہر ذی روح کی زندگی دشوار ترین کردی ہے

بعدازاں اس مسئلے پر ریفرنڈم ہوا جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے بتایا گیا کہ ترانوے فیصد عوام نے سوویت یونین کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ یہ محض پروپیگنڈہ تھا اور یوکرین میں شورشیں شروع ہوئیں۔ یوکرین اس دور میں بھی اپنی زرعی اور صنعتی پیداوار کے لحاظ سے سابق سوویت یونین کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت خوشحال تھا۔ جب سوویت روس میں اناج کی کمی ہوئی تو یوکرین کا سارا گندم ماسکو نے پورے ملک میں تقسیم کرا دیا اور جس سے وہاں زبردست قحط پڑا ۔

نوّے کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے پر پندرہ مشرقی یورپی اور وسطی ایشیائی ریاستیں اس سے الگ ہوگئیں۔ یوکرین ان سے پہلے آزاد ہو گیا تھا۔ 2013ء سے ایک بڑی جدوجہد کا آغاز ہوا ،جب یوکرین کے ماسکو نواز صدر وکٹر وینکوچ نے یورپی یونین سے معاہدے کی پیش کش کو مسترد کر دیا جبکہ یوکرین کی حزب اختلاف اور عوام کی اکثریت یورپی یونین کا حصہ بننے کی آرزومند تھی۔

ایسے میں صدر کے خلاف مظاہرے، ہنگامے ہوئے۔ بیلاروس کے شہر منسک میں روس نے صدر اور عوام کے نمائندوں کے مابین معاہدہ کرایا، مگر ایک برس بعد پھر مظاہرے شروع ہوئے۔ ایسے میں روس نے امریکااور نیٹو پر الزام عائد کیا کہ وہ عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ دراصل یوکرین میں سوویت یونین کے دور ہی میں روس نے بڑے پیمانے پر روسی بولنے والوں کو یوکرین میں بسایا تھا، لہٰذا روسی بولنے والی آبادی نے 2014ء میں واضح طور پر یوکرین سے علیحدہ ہونے اور الگ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا، اس پر مزید ہنگامے پھوٹ پڑے اس کو جواز بناکر اور امن کا پرچم لہراتے ہوئے روس نے آبنائے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔

واضح رہے کہ اُنیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ، فرانس اور سلطنت عثمانیہ نے مشترکہ طور پر کریمیا پر قبضے کے لئے روس سے لڑائی کی تھی ان قوتوں کو خدشہ تھا کہ روس کریمیا پر تسلط جما کر آگے پیش قدمی کرے گا۔ اس دور میں بھی روس کی توسیع پسند پالیسی پر بہت کچھ کہا جا رہا تھا۔ یورپ سب سے چھوٹا براعظم ہے جس میں دو درجن سے زائد ممالک ہیں جبکہ روس رقبہ کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ زارِ روس کے دور میں بھی روس خطّے کی بہت بڑی طاقت کا درجہ رکھتا تھا۔ فروری 2014ء میں روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ یہ بھی امن قائم کرنے کے نام پر ہوا۔ روس کا قطعی مقصد یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت سے روکنا اور نیٹو کا رُکن بننے نہیں دینا تھا اور اب بھی ہے۔

روسی اخبار پزووا نے کچھ عرصے قبل لکھا تھا کہ، نیٹو اور امریکاچاہتے ہیں کہ مشرقی یورپی ممالک کو جو روس سے علیحدہ ہوئیں تھیں ان سب کوخاص طور پر یوکرین کو نیٹو کا رُکن بنایا جائے اور نیٹو معاہدہ میں توسیع کی جائے تا کہ روس کو روکا جا سکے اور اس کا گھیرائو کیا جا سکے۔

نیٹو کے لئے یوکرین اس لئے اہم ہے کہ بڑا ملک ہے۔ آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے زراعت میں خودکفیل ہے، لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ روس کے لئے یوکرین اس لئے اہم ہے کہ اس کی پوری مشرقی سرحد روس کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ یوکرین کے باشندے قوی اور جرّی ہیں اگر یہ نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہوگیا تو نہ صرف دفاعی طورپر بلکہ ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس نیٹو کے دفاعی اڈّوں سے زیادہ یوکرین میں مغربی جمہوریت، مغربی کلچر سے پریشان ہے۔

سچ یہ ہے کہ آج کی نئی نسل جہاں ہے وہ امریکی اور مغربی کلچر میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ مثلاََ ہالی ووڈ کی فلمیں، ڈسکو ہال، موسیقی، فیشن، کھیل، آزاد ماحول وغیرہ۔ روس میں بھی یہ سب کچھ ہے مگر محدود طور پر اور پابندیوں کے ساتھ ہے۔ پھریہ بھی سچ ہے کہ سابق کے بی جی نئے رُوپ میں آئی ہے جس کا صدر پیوٹن کو بہت تجربہ ہے وہ ایک دور میں اس کا حصہ تھے۔

ایک طرف روس کے صدر پیوٹن کی روس کے احیاء کی مہم دُوسری طرف نیٹو کے اراکین کی نیٹو کو مزید طاقتور بنانے کی خواہش، خطّے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا سبب بن سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں روس یورپی یونین پر بھاری ہے۔ اسی لئے روس جدید ہتھیاروں کی تیاری میں مغرب پر سبقت لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ دُوسرے اس کے پاس دُنیا کے تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔ قدرتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ 

افرادی قوت تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور محنتی ہے۔ اس کے تمام سائنس داں اور ماہرین اسلحہ سازی میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یورپی یونین کو روس سے آگے نکلنے میں سو دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تازہ ترین خبریں یہ آ رہی ہیں کہ امریکانے پولینڈ اور ہنگری میں پچاسی ہزار سے زائد امریکی فوجی اور جدید ترین اسلحہ پہنچا دیا ہے۔ دُوسری طرف نیٹو نے بھی اپنی فوجوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل میں پہلے ہی امریکاروس کے خلاف قرارداد پیش کر چکا ہے جس کی ووٹنگ میں بھارت اور متحدہ عرب امارات نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ 

اس پر میڈیا میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ ایک طرف بھارت امریکاسے ہتھیار بھی لے رہا ہے اس کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کر چکا ہے اور امریکا بھارت تعلقات ماضی کے مقابلے میں بہت اچھے ہوگئے ہیں پھر بھی بھارت نے اس موقع پر ایک کی طرفداری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ روس کو بھارت نے یہ جتایا ہے کہ وہ اس کے ساتھ بھی ہے اور امریکا کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں بھارت کی ڈپلومیسی کی دُھوم ہو رہی ہے کہ وہ روس سے ہتھیار خریدتا ہے، امریکاسے دفاعی معاہدہ کرتا اور چین سے ایک سو بیس ارب ڈالر سالانہ کی تجارت بھی کرتا ہے دونوں ہاتھوں میں لڈّو کی کہاوت مشہور ہے مگر یہاں تین لڈّو ہیں۔ خارجہ پالیسی کا بھارتی توازن یا اس کو جو بھی عنوان دیا جائے میڈیا میں اس پر بحث جاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلیکن نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ فتح یوکرین کی ہوگی روس کو شکست کا سامنا ہوگا۔ یوکرین کے عوام اپنی آزادی، جمہوریت اور خوشحالی، خودمختاری کا دفاع کرنا جانتے ہیں دُنیا ان کی اور ان کے حقوق کی حمایت کر رہی ہے۔

روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ وہ یوکرین کے ساتھ جنگ نہیں کر رہے اور نہ حملہ کیا ہے یہ دونوں لفظ غلط ہیں روس صرف عوام کے جان مال کو ان کی آزادی اور امن کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔ ان کا درحقیقت اشارہ یوکرین میں بتیس فیصد روسی بولنے والوں کی طرف تھا جو یوکرین سے الگ اپنی آزاد ریاست کے خواہاں ہیں اور روس ان کے دامے درمے سخنے مدد کرتا آیا ہے اور اب اس کا ارادہ بھی یہی ہے کہ یوکرین کی مشرقی شمالی سرحد سے ملحق یوکرین کے علاقے پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کی جائے جہاں روسی بولنے والی آبادی موجود ہے۔ اس طرح روس کا یہ خدشہ کہ یوکرین نیٹو کا رُکن بن گیا تو روسی سرحد کے قریب نیٹو اپنے فوجی اڈّے تعمیر کرے گا، یہ خدشہ ختم ہو جائے گا اور روس کی حمایت یافتہ اسٹیٹ قائم ہو جائے گی۔

دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں سرحد کا ملنا نہ ملنا ایک ثانوی مسئلہ ہے۔ جدید ہتھیار کسی بھی فاصلے سے مار کئے جا سکتے ہیں۔ امریکاکی سرحدیں روس یا چین سے نہیں ملتی ہیں مگر امریکاکو ان ممالک سمیت شمالی کوریا جیسے ملک سے بھی تھریٹ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ففتھ جنریشن وار اور خلائی لیزر ہتھیاروں کے دور میں فاصلوں کی اہمیت ثانوی ہو چکی ہے۔ 

روسی صدر کی اس دلیل میں جان نہیں، بلکہ وہ نیٹو کی یورپ میں مزید توسیع نہیں چاہتے، دُوسرے یہ کہ یوکرین نیٹو کو بڑی افرادی قوت فراہم کر سکتاہے جو اس کے لئے بہت اہم ہے اس کا راستہ روکنا ہے۔ روس کی طاقت اور دبدبہ کی یورپ پر دھاک بٹھانا ہے، جو لوگ روس کی سپر طاقت بھول چکے ہیں انہیں یاد دلانا ہے۔ روس کو عالمی سطح پر فعال اور طاقتور ملک کے طور پر جگہ دلانا ہے۔ ایسے میں یوکرین قربانی کا بکرا بن گیا۔ یہی ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے ہے۔

یورپی ماہرین نے بتایا ہے کہ یوکرین کے ایٹمی گھر کو روسی حملے سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے فی الفور تابکاری کا اخراج نہیں ہو رہا ہے۔ روسی فوجیں یوکرین کے جنوبی صوبہ میں واقع دُوسرے ایٹمی بجلی گھر کو بھی قبضہ میں لینے کے لئے نبردآزما ہیں۔ پورے ملک میں خوراک، پینے کے پانی، ایندھن اور دوائوں کی شدید قلت ہو رہی ہے۔ فضائی حدود بند ہیں۔ بیرونی ممالک سے رابطے منقطع ہیں ابھی رومانیہ کا ایک جہاز گرا لیا گیا ہے اس کی وجہ سے سرحدوں پر نئی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ 

ایسے میں مشرقی یورپی ممالک اور مغربی یورپی ترقّی یافتہ ممالک کو شدید تشویش ہے کہ روس کے غیرذمہ دارانہ اقدام کہیں یورپ میں جنگ کو ہوا نہ دیں، اگر ایسا ہوا تو پھر کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں، کس کی کیا پالیسی ہو سکتی ہے امریکا، چین، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک کس کے ساتھ ہوں گے اور دُنیا کی بے حال معیشت کا کیا حال ہوگا؟ یہ تمام اور ایسے دیگر سوال پوری دُنیا سے جواب مانگتے ہیں۔ یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کو اس بات پر زعم ہے کہ وہ یورپ کو تیل اور قدرتی گیس فراہم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اتفاق سے روسی پائپ لائن بھی یوکرین سے گزرتی ہے۔ 

اس کے علاوہ روس کی تیل اور گیس کی پائپ لائنیں ہالینڈ اور جرمنی بھی آتی ہیں۔ یورپی ممالک کے لئے یہ ایک اہم ذریعہ ہے جس پر روس انہیں بلیک میل کرتا ہے، مگر روس نے یورپی ممالک کے ساتھ مزید کوئی چھیڑ چھاڑ کی تو وہ ان روسی پائپ لائنوں کو اُڑا دینے میں کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے۔البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کی مجموعی معیشت کمزور ہے۔ اسلحہ سازی کی صنعت پر زور ہے اور اس وجہ سے سابق سوویت یونین کو منتشر ہونا پڑا تھا۔ 

روس کی معیشت اور اندرونی مسائل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکا، یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا اورجاپان نے جس طرح کی اقتصادی، تجارتی، ثقافتی پابندیوں کا اعلان کیا ہے اور پابندیاں عائد کر دی ہیں ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ روسی عوام کا شدید ردعمل سامنے آئے گا وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ تب کیا صورت حال ہو سکتی ہے ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی کمیونسٹ پارٹی کے پولیٹ بیورو کو نئے رہنما کا انتخاب کرنا پڑ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں روس ایک نئے سیاسی بحران سے دوچار ہو جائے اور وہاں سیاسی تبدیلی رُونما ہو جائے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق روس اور یوکرین کے سفارتکاروں کے مابین بیلاروس کی سرحد پر بات چیت کا عمل جاری ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے براہ راست بات چیت کی بھی پیش کش کی ہے مگر کریملن کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کی طرف سے امریکا اور نیٹو کی حالیہ پالیسی پر نکتہ چینی بھی کی جا رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے روس پر حملے سے قبل امریکی صدر اور دُوسری طرف نیٹو کے رہنماؤں کے بیانات تھے کہ یوکرین پر حملہ برداشت نہیں کریں گے، مُنہ توڑ جواب دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ روس نے حملہ کر دیا۔ یوکرین کا حلیہ بگاڑ دیا مگر امریکاآیا نہ نیٹو آیا۔ البتہ بیانات آتے رہے، روس کی مذمت ہوتی رہی، اقوام متحدہ میں واویلا ہوتا رہا، پھر بھی روس کی پیش قدمی جاری رہی۔ 

بعض مبصرین اس پر امریکااور نیٹو کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ بڑی طاقتوں کا یہی وتیرہ رہا ہے انہیں چھوٹے ممالک کی زیادہ پروا نہیں ہوتی، وہ انہیں قربانی کا بکرا بنا کر ا س میں بھی اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ پھر دونوں گروہوں کو میز پر بٹھا کر صلح کرا دیتے ہیں۔ بڑی طاقتیں جب تک ان کے اپنے مفادات پر براہ راست حملہ نہ ہو وہ حرکت میں نہیں آتی ہیں۔ اس لئے دانا کہتے ہیں کہ بڑی طاقت کی دوستی پر چھوٹے ملکوں کو قطعی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نزدیک چھوٹے ملکوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ چھوٹے ملکوں کو آزاد خارجہ پالیسی وضع کرنا چاہئے کبھی کسی بڑی طاقت کا آلۂ کار نہیں بننا چاہئے۔ 

تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ بھٹو صاحب کا اشارہ برطانیہ اور امریکاکی طرف تھا، کیونکہ ماضی بعید میں برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں نے غریب ملکوں کو لوٹا۔ بعدازاں سرد جنگ میں امریکانے کوریا، ویت نام، جاپان اور مصر کے ساتھ کیا کیا، حالیہ مثال عراق کی ہے امریکا نے اپنے اتحادیوں اور حامیوں کے ساتھ عراق پر حملہ کیا صدر صدام حسین کا تختہ اُلٹا، انہیں قتل کیا۔ یہ عمل الجزائر، لیبیا، مصر اور لبنان میں بھی اپنایا گیا۔ بعدازاں امریکا کے سابق صدر بش نے اعتراف کیا کہ ہمیں صدر صدام حسین کو عراق میں قائم رکھنا چاہئے تھا۔ 

اس طرح کی تاریخی غلطیاں اور بڑی طاقتوں کی جارحانہ پالیسیاں انسانیت کو بہت زِک پہنچا چکی ہیں۔ حالیہ مثال یوکرین کی ہے۔ روس اور یوکرین اپنے اپنے مسائل پر بات چیت کر سکتے تھے اور اب اس جنگ و جدل کے بعد بھی تو روس اور یوکرین کے وفود مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں۔ دُنیا کی تمام جنگوں کے صرف دو حل سامنے آئے ہیں یا تو دونوں تباہ ہوئیں یا مذاکرات پر مائل ہوئیں، تیسرا راستہ کوئی نہیں ہے۔

یوکرین متوسط درجہ کا ملک ہے۔ اس کے عوام نے صدیوں کی محنت سے اپنے ملک کو اَدب، شاعری، فنون لطیفہ ، سینما آرٹ اور کھیلوں میں ایک نمایاں مقام دلایا ہے۔ فٹ بال مقبول کھیل ہے اور یوکرین کا ایک نمایاں مقام ہے۔ زرعی شعبہ ترقّی یافتہ ہے۔ پاکستان برسوں سے یوکرین سے گندم خریدتا آیا ہے۔یہ یورپی ممالک کو اناج، سبزیاں، فروٹ اور گوشت فراہم کرتا ہے۔ جفاکش اور زندہ دلوں کا ملک ہے۔

انسانی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس جیسے پُرامن ملک کے ساتھ کوئی بڑی طاقت جس کی وجہ سے اس نوعیت کی پالیسی اپنائی ہے تو اس کی کسی طور پر بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ رہی مصلحتوں کی بات تو یہ بھی ایسے موقع اور حالات میں قطعی مناسب نہیں ہے۔ یوکرین کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔