حکمرانان پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں شہر اقتدار کی راہوں میں ہونے والی سرگوشیاں بلند آوازوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور تمام سرکردہ سیاسی گروہ اپنی اپنی قوت مجتمع کر کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں فی الحال سڑکوں ڈرائنگ روموں اور بنی گالہ میں مصروف ہیں، اب یہ کوششیں منتخب ایوانوں کی زینت کب بنتی ہیں اس کا دارومدار فریقین کی سیاسی "بصارتوں کی سمت" کے درست ہونے پر ہے،مارچ کے پہلے دس دنوں کا مقبول عام لفظ "عدم اعتماد" ہے جس کے نام پر اس قوم کے بائیس کروڑ عوام کو ہر روز نیا چورن اور نیا منجن بیچا جا رہا ہے ،25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن نے پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا، اسے سلیکٹیڈ حکومت کا نام دیا، صرف عمران حکومت کو ہی نشانے ہی نہیں بلکہ ایسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کو بھی کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ اور اس کے حلیف ابھی تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے افغانستان میں خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، دوسری طرف عمران خان کے دورہ روس کے موقع پر یو کرائن پر حملے میں بھی پاکستان کو شامل رضامندی سمجھا جا رہا ہے،عمران حکومت کے خلاف حالیہ برق رفتاری کے تانے بانے بھی عالمی دباؤ کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں،حکومت کے حامی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ پر چار ارب خرچ ہوئے ہیں، متعلقہ ادارے اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ رقم کہاں سے آئی ہے؟۔
اپوزیشن جس میں پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں شامل اقتدار ہے؟ ساڑھے تین برس تک تو پارلیمنٹ سے استعفےٰ دینے کے لیے تیار نہ تھی اور استعفے مانگتے پر پی ڈی ایم سے ہی الگ ہو گئی تھی ، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تو 26 جولائی 2018ء کو اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے سے ہی منع کیا تھا مگر ان کا بس نہیں چل سکا، عمران خان نے اپنے وعدوں کے مطابق سابقہ حکمرانوں اور ان کے چہیتوں سے لوٹ مار کے پیسے نکالنے کے لیے نیب کو کھلی چھٹی دی ،نیب کا دعویٰ ہے کہ ہم نے کھربوں کی ریکوری کی ہے مگر نواز شریف ، شہباز شریف ،حمزہ شہباز ،شاہد خاقان عباسی ،احسن اقبال ،مفتاح اسماعیل خواجہ سعد رفیق ،اصف علی زرداری ،راجہ پرویز اشرف فریال تالپور اور خورشید شاہ سے طویل جیل یاترا کے باوجود کچھ ریکور نہ ہو سکا،(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے والوں نے تبدیلی کے لیے عمران خان کا ساتھ دیا تھا اور اسٹیبلشمنٹ بھی تبدیلی کی حامی تھی مگر تبدیلی کے دلدادہ توقع کے مطابق نتائج حاصل نہ کر سکے۔
بیروزگاری مہنگائی میں غیر معمولی اضافے نے تبدیلی کے فلسفے پر ہی پانی پھیر دیا،جس پر حکومت کی حلیف جماعتیں بھی تبدیلی کے لیے پر تولتے نظر آئیں ،سابق صدر مملکت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم ،(ن) لیگ، (ق) لیگ اور جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقاتوں نے حکومت مخالف موقف کو تقویت دی اور یہ تاثر بھی مضبوط ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے لہذا پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کیا گیا اس ضمن میں (ق) لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے منصب کی پیشکش کی باتیں بھی گردش کرتی رہیں،فریقیں کے دعوے مختلف ہیں، کیا پی ٹی آئی کے اپنے ارکان اسمبلی ہی منحرف ہوں گے یا اتحادی ساتھ چھوڑ جائیں گے؟ اپوزیشن رہنما تو خوش فہمی کا شکار ہیں کہ پی ٹی آئی کے اپنے ارکان تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وزیر دفاع کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کے اپنے ارکان کم ہو جائیں گے۔
مبصرین کا خیال ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی مشکل ہے اور ایسی صورت میں فوری انتخابات کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہے، وزیر اعظم عمران خان پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان اور نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم دے چکے ہیں ؟ کیا یورپی یونین میں 20 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کا تسلسل برقرار رہے گا؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے اپوزیشن کو موجودہ حکومت کے اتحادیوں سے کچھ غیر پسندیدہ سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔
دوسری طرف یہی سمجھوتے عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیراعظم کو بھی کرنے پڑیں گے۔ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شہادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں، ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے، یورپین یونین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی سیاسی شہادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ جو کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں حاصل نہیں ہوسکے گی۔ اپوزیشن کی حکمت عملی کا حدتک کامیاب ہوتی ہے،کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، وزیر اعظم نے اپوزیشن رہنماؤں نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، اور آصف زرداری کو جلسہ عام میں تحریک عدم اعتماد کے جواب میں سختی سے نمٹنے کی دھمکی دی ہے ،حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حکومت حکومت ہوتی ہے ،کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو گی اور اگر پیش کر بھی دی گئی تو کامیاب ہر گز نہیں ہو گی 172 ارکان پارلیمنٹ تک لانا ہی اپوزیشن کے لیے ممکن نہ گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ عوامی لانگ مارچ کے بعد قومی اسمبلی اجلاس طلب کر کے تحریک عدم اعتماد بھی پیش کر دیں گے 13 حکومتی ارکان ساتھ دیں گے، شفاف انتخابات اپوزیشن کی اولین ترجیح ہے، عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کا صوبائی صدر قطعاً نہیں بنائے گا، عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ ساڑھے تین ارب روپے میں نیلام کرنے کے الزام کی متعلقہ اداروں نے خفیہ انکوائری شروع کر دی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت آیندہ انتخابات سے قبل عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی خواہاں ہے تا کہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات میں ووٹر پی ٹی آئی کو نظر انداز نہ کرے، بتایا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے عمران حکومت گرانے کیلئے جہانگیر ترین نے کچھ شرائط پیش کر دی ہیں، جن کا تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی میڈیا پر اعلان کی خواہش ظاہر کی گئی ہے ، ان شرائط پر عملدرآمد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیے مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ۔