• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسلِ نو، جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں سوچ سمجھ کر قدم رکھے

رضوانہ وسیم

ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی نئی چیز منظر عام پر آتی ہے تو بغیر سوچے سمجھے سب اس کے پیچھے چل پڑتےہیں، خصوصاََ نوجوان اس کا نقصان یا فائدہ جانے بغیر زندگی کا حصہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کوئی بھی نئی چیز صرف خواص میں ہی رواج پاتی تھی لیکن اب الیکٹرانک میڈیا کا دورہے تو ہر چیز پلک جھپکتے ہی خاص و عام میں مقبول ہو جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک کریز جو ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے، وہ ہے نوجوانوں میں ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ یہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے ،جو انتہائی منفی رجحان پیدا کر رہا ہے۔ جو کچھ ٹک ٹاک پر ہورہا ہے، وہ فن و ثقافت اور تفریح کے زمرے میں نہیں آتا۔اکثر نوجوان غیر اخلاقی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔فالورز کی تعداد بڑھانے کی خواہش، ہیرویا ہیروین بننے کی چاہت، نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کردیتی۔ 

سوال یہ ہے کہ نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو منوائے، خود کو دوسروں سے الگ ثابت کرے، اگرچہ جدید ٹیکنالوجی ترقی اور نئی فکر کے راستے کھولتی ہے اور دنیا نئی جد توں کو بروئے کار لا کر ترقی کی منازل طےکرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ نوجوانوں کے پاس درست سمت کا تعین نہیں ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں ۔ یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے۔

آج کے بیشتر نوجوان خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے ہر قسم کی ویڈیوز بنا رہے ہیں جو زیادہ تر بے مقصد ہیں۔ اگرچہ اُن میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اگر یہی ویڈیوز بامقصد اور معیاری ہوں تو یہ ان کے کیریئر بنانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں، انہیں دیکھ کر دوسرے نوجوان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، نوجوان خود کو ہیرو سمجھ رہے ہیں۔

بہت کم عمر لڑکے لڑکیاں پڑھائی لکھائی سے بےبہرہ صرف ٹک ٹاک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر پارک، کالج ،یونی ورسٹی میں پھکڑ پن سےآلودہ ڈائیلاگ بول کر خود کو ہیرو ہیروئن ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے ان میں سے بہت سے خود کو سوشل میڈیا پر منوانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور لاکھوں ڈالر بھی کماتے ہیں اور یہی سب سے بڑا لالچ ہے جو ہر نوجوان کو ٹک ٹاک کارسیا بنا رہاہے۔

ڈالر کمانے کے چکر میں نوجوان خطرناک قسم کی ویڈیوز بھی بناتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے، جن میں خود کو مشہور کرانے کے شوق میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ٹک ٹاک صرف نوجوانوں میں ہی نہیں مقبول ہورہی بلکہ بچے بھی اس کےگرداب میں پھنستے جارہے ہیں۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ نسلِ نو کو صحیح سمت اور صحیح رخ بتائیں ،تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اچھی تعلیم و تربیت سوچ کے زاویوں کو بدل دیتی ہے،ذہن وسعت پاتا ہے۔ روشنی کی چھوٹی سی کرن بھی گھپ اندھیرے میں تیرگی کے احساس کو کم کر دیتی ہے۔ وقت بہت بدل گیا ہے ، لہذا ہمیں اپنے جوانوں سے اگر واقعی محبت ہے اور ہم ان کی بھلائی اور بہتری چاہتے ہیں تو ان کو برا بھلا کہنے کی بجائے ان کی مدد اور رہنمائی کریں، ان سے ہر ممکن تعاون کرکے ان کو خود پر بھروسہ کرنا سکھائیں تاکہ وہ زندگی میں کامیابی سے آگے بڑھ سکیں اس طاقت کو ملک کی ترقی کے لیے بچانا ہوگا تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو سکیں ۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔ اس ہفتے نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔