• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عاصمہ بانو

پیارے بچو! آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی ’’عقل بڑی کہ بھینس‘‘ آج میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

ٹنکو ایک پیارا سا سفید خرگوش تھا۔ ایک صبح جنگل سے گزرتے ہوئے، اس کی نظر راجو ہاتھی پر پڑی۔ ٹنکو بولا۔ ’’سلام بھائی، دیکھو کتنی خوب صورت صبح ہے! ہوا بھی چل رہی ہے۔‘‘ راجو نے حیرت سے ٹنکو کو دیکھا اور بولا۔ ’’چلو ٹنکو یہاں سے بھاگ جائو۔ میرے پاس تم جیسے چھوٹے سے جانور کے لئے کوئی وقت نہیں۔‘‘ ٹنکو افسوس سے سرجھکا کر آگے بڑھ گیا سمندر کے کنارے اسے پنکی دکھائی دی۔ وہ ایک بہت بڑی مچھلی تھی۔ ٹنکو نے اونچی آواز میں پکارا۔ ’’پنکی…پنکی! میری بات سنو۔‘‘ پنکی تیرتی ہوئی کنارے پر پہنچی ۔ اس کی نظر اوپر نیچے اچھلتے ہوئے ٹنکو پر پڑی۔ پنکی نے بلند آواز میں پوچھا۔’’ ٹنکو!کیا تم نے مجھے بلایا ہے۔‘‘

ٹنکو بولا، ہاں ہاں! میں نے ہی تمہیں آواز دی تھی۔‘‘

’’تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ تم جیسے چھوٹے اور کمزو جانور سے بھلا میں کیوں بات کروں۔‘‘ اتنا کہہ کر پنکی دوبارہ پانی میں اتر گئی۔ ٹنکو بے چارہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے دوبارہ پنکی کو آواز دی۔ ’’پنکی…! کیا تم سمجھتی ہو کہ میں کمزور ہوں؟ اگر میں تمہیں ’’رسہ کشی‘‘ میں ہرا دوں تو تم مجھے یقیناً اپنا دوست بنا لوگی۔‘‘

پنکی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے! جب چاہو مقابلے کے لئے آجائو۔‘‘پھر ٹنکو راجو کے پاس پہنچا اور اسے آواز دی۔ ’’راجو تم یہی سمجھتے ہو نہ کہ تم بہت بڑے طاقت ور ہو اور میں بہت چھوٹا سا ہوں۔ اب میں یہ ثابت کروں گا کہ ہم برابر ہیں۔‘‘

’’ارے واہ! تم کیسے ثابت کرو گے؟‘‘ راجو نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں رسہ کشی کے کھیل میں ہرا کر، یہ لو رسہ۔‘‘ راجو نے ہنستی ہوئے رسے کو اپنی کمر سے باندھ لیا۔ ٹنکو رسے کا دوسرا سرا پکڑ کر بھاگتے ہوئے پنکی کے پاس پہنچا اور بولا۔ ’’تم اس رسے کو اپنی دم پر باندھ لو اور جب میں کہوں تب اسے کھینچنا۔ پنکی ٹنکو کی بے وقوفی پر خوب ہنسی۔ ’’میں رسے کا دوسرا سرا اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیتا ہوں۔‘‘ ٹنکو چھلانگیں مارتا ہوا چلا گیا۔ جھاڑیوں میں چھپ کر وہ زور سے چیخا، ’’رسہ کھینچو۔‘‘

راجو نے مسکراتے ہوئے رسہ کھینچنا شروع کیا، مگر جلد اس کی مسکان غائب ہوگئی۔ راجو بڑبڑایا، ’’ٹنکو تو بہت طاقت ور ہے، ادھر پنکی نے بھی یہی محسوس کیا اس نے مزید زور لگایا مگر رسے کو آگے نہ کھینچ سکی۔ پنکی بڑبڑائی، ٹنکو مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ 

دونوں نے اتنا زور لگایا کہ رسہ درمیان سے ٹوٹ گیا راجو بے چارا ڈھلان پر جاگرا اور پنکی گہرے پانی میں ایک چٹان سے جاٹکرائی۔ ٹنکو سب دیکھ رہا تھا۔ وہ بغیر کچھ بتائے اچھلتا کودتا گھر واپس چلا گیا۔ راجو اور پنکی پریشان تھے کہ چھوٹے ٹنکو نے انہیں کیسے ہرا دیا۔ 

اس دن کے بعد سے و ہ ہمیشہ ٹنکو کی عزت کرنے لگے۔ تو پیارے بچو!عقل کا استعمال کرکے ہم طاقت ور کو بھی ہرا سکتے ہیں، لیکن یاد رکھیں عقل کا استعمال ہمیشہ اچھے کاموں کے لئے ہی کرنا چاہئے۔