کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اس وقت ہدف عدم اعتماد ہے، صوبائی اسمبلیاں موجود رہ سکتی ہیں، سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ آج عمران خان یقینا دو قدم پیچھے ہوئے ہیں۔
انہیں مشورہ دیا گیا ہوگا کہ اتنے محاذ نہ کھولیں۔ سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر جو دس بارہ سال سے ہے وہ وہی تقریر کرتے ہیں۔ آج کل انہوں نے امریکا کارڈ استعمال کرنا شروع کیا ہے، سینئر صحافی ارشاد بھٹی نے کہا کہ آج کل کے سیاسی ماحول کے باوجود وزیر اعظم کی تقریر قابل تعریف ہے۔
قبل ازیں پروگرام کے آغاز میں میزبان شہزاد اقبال وزیراعظم عمران خان کا خطاب خلاف توقعہ تھا آج ان کے لب و لہجے اور لفظوں کے چناؤ میں تبدیلی نظر آئی۔ تنقید ضرور کی لیکن کسی کا نام نہیں بگاڑا اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے آج اپنی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر بات کرنے پر زور دیا۔
وزیراعظم کے لہجے میں آج واضح تبدیلی دیکھی گئی۔ پرویز الٰہی کا صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہنا ہے اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی، آئین اور قانون واضح ہے اسپیکر قومی اسمبلی کو اس پر عمل کرنا چاہئے ہم اس پر اپنا فیصلہ کرچکے ہیں اس پر حتمی مشاورت کر رہے ہیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی مل کر چلے گی۔
اپوزیشن اتحاد میں گئے تو وزارتوں سے استعفیٰ دے دیں گے آج جہانگیر ترین گروپ کے عون چوہدری سے بھی ملاقات ہوئی ہے دو دن میں وہ بھی حمایت کا ہم سے ذکر کریں گے اور شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کسی بھی وقت ہوسکتی ہے اور عمران خان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش میرے علم میں نہیں، قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کا مقصد نظر نہیں آتا، صوبائی اسمبلیاں موجود رہ سکتی ہیں بہتری اسی میں ہے کہ جلد عوام کے پاس جایا جائے اور اعتماد لیا جائے.
پندرہ سولہ ماہ کیلئے مستقل حکومت بنانا سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم نے ق لیگ کو دعوت دے دی ہے اور اگر وہ اس حکومت کا بوجھ لے کر عوام کے پاس جائیں گے تو اُن کی سیاست خطرے میں ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ عدم اعتماد کا ساتھ دیں ابھی کوئی جواب نہیں دیا مشاورت ہو رہی ہے۔
پنجاب میں ابھی عدم اعتماد کی بات نہیں ہوئی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ پنجاب حکومت اکثریت کھو چکی ہے۔ پتہ نہیں ق لیگ قومی اسمبلی کی بات کر رہی ہے یا صوبائی کی لیکن قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا صوبائی اسمبلیاں رہ سکتی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس وقت ہدف عدم اعتماد ہے اور بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد الیکشن کرایا جائے۔ ایک بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ارکان اور اتحادی بھی عدم اعتماد میں ساتھ دیں گے اس کے بعد فیصلہ ہوجائے گا۔
اگر ناکام ہوگئے اس طرح کا سوال کیا جاتا ہے جس کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے اگر ناکام ہوگئے تو اپوزیشن جاری رکھیں گے اسمبلی کے اندر بھی اور باہر بھی اور اس وقت تک کوئی دباؤ نہیں ہے اگر ہوا تو ضرور بتائیں گے۔ آئین سے انحراف کیا جائے گا تو ملک کا نقصان ہوگا۔ سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ آج عمران خان نے پورا نام لیا یقینا وہ دو قدم پیچھے ہوئے ہیں۔
انہیں مشورہ دیا گیا ہوگا کہ اتنے محاذ نہ کھولیں۔ ایک طرف شاہ محمود کہتے ہیں کہ ترین گروپ کی حیثیت نہیں ہے دوسری طرف وزیراعظم گورنر سندھ کو ملنے کیلئے بھیج رہے ہیں یہ ایک کنفیوژن ہے۔ میری اطلاعات یہ ہیں کہ پی ایم ایل این پرویز الٰہی کو سی ایم شپ دینے کیلئے مان گئی ہے اور آج کا بیان بہت دلچسپ ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی یہ پوائنٹ ایگری نہیں ہوا۔
کہا گیا کہ ہم نے مسلم لیگ نون کو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آپ چیف منسٹری ہمیں دیں اور تین مہینے کے بعد کی کوئی بھی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیں ہمیں منظور ہے اس پر میں نے سوال کیا کہ آپ کو تین یا چھ مہینے کی چیف مینسٹری کیوں چاہئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری عزت کا معاملہ ہے.
مسلم لیگ نون نے دو دفعہ ہمارے ساتھ ہاتھ کیا تھا، ہم چاہتے ہیں یہ مسیج کلیئر ہو۔ اتحادیوں کی خطرناک موو ہوسکتی ہے ایک سنیریو دینا چاہتا ہوں ق لیگ کہہ رہی ہے ہم، ایم کیو ایم اور باپ مل کر اسٹریٹجی فائنل کر رہے ہیں عون چوہدری بھی آگئے ہیں اور ترین گروپ بھی ہم مل کر کریں اگر یہ اتحادی کل پرسوں پریس کانفرنس کردیتے ہیں کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ جارہے ہیں تو یہ سارا گیم چینج ہوجائے گا یہ عمران خان پر آجائے گا ووٹ آف کانفیڈنس لینا پھر ان پر سے بوجھ ہٹ جائے گا کہ آپ نے 172پورے کرنے ہیں۔
سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر جو دس بارہ سال سے ہے وہ وہی تقریر کرتے ہیں۔ آج کل انہوں نے امریکا کارڈ استعمال کرنا شروع کیا ہے حالانکہ مشرف دور میں جب امریکا کو اڈے دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس بات کی حمایت میں ان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔
تین سال تک جو سارے اتحادی ساتھ تھے وہ اس وقت نیوٹرل بنے ہوئے ہیں فی الحال جیت اپوزیشن کی ہے جہاں تک ق لیگ کی طرف سے اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کی بات کی گئی ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی اس پر اتفاق ہوا ہے تو یہ عمران خان سے اتفاق کی تو بات نہیں ہے۔
نعیم الحق کے جنازے پر عمران خان نہیں جاتے لیکن چوہدری شجاعت کی مزاج پرسی کے لئے جاتے ہیں۔ اور چوہدری شجاعت گاڑی میں لیٹ کر مولانا فضل الرحمن کے پاس جاتے ہیں باقی باتیں واضح ہیں۔ ایم کیو ایم باپ اور جی ڈی اے وہ ق لیگ کے ساتھ کیوں نتھی کرے گی وہ براہ راست ڈیل کیوں نہیں کرے گی۔
سینئر صحافی ارشاد بھٹی نے کہا کہ آج کل کے سیاسی ماحول کے باوجود وزیر اعظم کی تقریر قابل تعریف ہے۔ اُن کی تقریر کو دیکھتے ہوئے پہلے یہ تبصرہ کیا گیا کہ وہ گھبرا گئے ہیں اس لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں اگر اسی اصول کو بنیاد بنالیں تو اس کا مطلب ہے آج کی تقریر سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ نہیں جارہے۔