کراچی (نیوز ڈیسک) اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی غلطیوں کی وجہ سے بحران میں گھرے ہوئے ہیں، 6ماہ پہلے چیزیں ٹھیک کی جاسکتی تھیں ، عمران خان کو اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا چاہئے .
ادارے میں مداخلت عمران خان سے خرابی کی وجہ بنی، یہ بہت نظم و ضبط والا ادارہ ہے سیاستدانوں کو اصول بنا لینا چاہئے کہ اس ادارے میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی اور ہونی بھی نہیں چاہئے اور نہ ادارہ قبول کرتا ہے، جتنا انہوںنے لک آفٹر کیا کم از کم ان کا احسان ہی مان لیں ، احسان فراموشی ہمارے دین کے بھی خلاف ہے .
عمران خان ایماندار ہیں اور ان کے ارادے اچھے ہیں ، کل والے بیان پر قائم ہوں، تصادم میں حکومتوں کا نقصان ہوتا ہے،حکومت چھوڑی نہ اپوزیشن جوائن کی ، پی ٹی آئی حکومت کے دس سے بارہ ارکان اپوزیشن کی محفوظ تحویل میں ہیں ، آصف زرداری بہت مضبوط اور پائیدار شخصیت ہیں، جو بات کرتے ہیں کھڑے رہتے ہیں، وہ بالکل اتحادی ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ ہیں، ہم بھی ان کے اتحادی ہیں، کوئی دوسری رائے نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے دو مختلف انٹرویوز میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے وزیراعلیٰ بننے کے حق میں بینر لگے تھے جو میں نے10 منٹ بعد اتروادیئے تھے۔حکومتیں کبھی یہ کام نہیں کرتیں حکومت جلسوں کا کام کرے تو اس کا نقصان حکومت کو ہی ہوتا ہے۔
حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔عمران خان کو لاکھوں لوگ جمع کرنے کی بات نہیں کرنی چاہئے۔یہ سو فیصد غلط خبر ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیں وزارت اعلیٰ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ساڑھے تین سال بعد یہ سمجھ آجانی چاہئے کہ جو چیز دینی ہیں اس کا ذکر نہ کریں۔پنجاب کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے تھوڑی بہت خراب نہیں ہے چھوٹے چھوٹے کئی گروپ بن گئے ہیں۔ ابھی توجہ وفاق پر ہے پنجاب کی صورتحال واضح نہیں پنجاب اسمبلی میں زیادہ مقابلہ ہے۔
احسان فراموشی ہمارے دین کے بھی خلاف ہے جتنا لک آفٹر انہوں نے کیا ہے تھوڑا سا ساتھ ساتھ خود بھی سیکھنے کی ضرورت تھی ۔ اگر ساتھ ساتھ وہ نہیں ہوسکا تو کم از کم ان کا احسان ہی مان لیں۔ مشرف نے ہم پر ایک احسان کیا تھا ہم نے مشکل وقت میں انہیں نہیں چھوڑا اب بھی رابطہ ہے ان کی صحت دریافت کرتے رہتے ہیں ۔ہر بندے کو انسان سمجھنا چاہئے تعلقات جو ہیں سیاست میں یہ آپ کو پے بیک کرتے ہیں فوری نتیجہ نہیں آتا۔
نواز شریف کی جیسے میں نے آپ کو کہاوہ دونوں آپس میں بہت زیادہ چیزیں ملتی ہیں نواز شریف کی خرابی کی اور جو اب خرابی ہوئی ہے ۔یہ بہت نظم و ضبط والا ادارہ ہے سیاستدانوں کو اصول بنا لینا چاہئے کہ اس ادارے میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی اور ہونی بھی نہیں چاہئے اور نہ ادارہ قبول کرتا ہے۔
آصف زرداری نے بہت کچھ سیکھا ، انہوں نے حکومت میں اپنا معاملہ اداروں کے ساتھ ٹھیک رکھا تھا۔عمران خان کو پہلے اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا چاہئے وہ کہتے ہیں میں آخری وقت تک کوشش کرتا رہتا ہوں تو پھر کوشش کریں کوشش تو ہونی چاہئے ۔ اگر وہ ہی لوز کریں گے تو کسی کا نقصان نہیں ہے انہیں کا نقصان ہے۔میں تو چھ ماہ قبل کی بات کررہا ہوں خراب چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت بہت ہے ۔خان صاحب کہتے ہیں میں آخری وقت تک فائٹ کرتا رہوں گاتو فائٹ کی سمت درست کرکے ٹرائی کریں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ایک اور انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ 10 یا 12 بندے ایسے ہیں جو ہمیں بھی ملے تھے، اب ہم انہیں ڈھونڈ رہے ہیں، مل نہیں رہے، ہمیں پتہ چل گیا ہےکہ وہ کہاں پر ہیں، وہ بندے اپوزیشن کی سیف کسٹڈی میں ہیں، حکومت کو ان سے زیادہ پریشانی ہے، جن کی طرف یہ زیادہ دیکھتے تھے ان کا بیان آگیا کہ وہ نیوٹرل ہیں، کوئی دوست ملک اور ادارہ بھی اس کام کے قریب نہیں آرہا۔
پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش ہوتی رہی ہے، شہباز شریف نے بھی یہ بات کہی تھی، مولانا فضل الرحمان صاحب گھر آئے تو انہوں نے بھی یہی بات کی، عمران خان صاحب آئے تو انہوں نے کسی چیز کا ذکر ہی نہیں کیا، ایم کیو ایم نے بھی یہی بتایا ہےکہ شاید وزیراعظم صاحب چائے پینے آئے تھے،ہم نے پلادی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ترین گروپ آج بھی مائنس بزدار کے موقف پر قائم ہیں، عون چوہدری حمزہ سے ملے ہیں، ان سے سلسلہ چل رہا ہے، عون چوہدری کے کچھ لوگوں کا ہمارے ساتھ اچھا رابطہ ہے، وقت قریب آئےگا تو وہ بھی کچھ فیصلے کریں گے، ہم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا، جس سے پی ٹی آئی کو کوئی نقصان ہو رہا ہو، حکومت کے ساتھ ہیں مگر نئے فیصلے کے لیے بات چیت جاری ہے، اتحادی مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں اسلام آباد میں لوگ اکٹھا کر رہی ہیں، اپوزیشن اور حکومت کے لوگ اکٹھا کرنے سے تصادم کا خطرہ ہے، کبھی حکومت نے بھی ایساکام کیاہے کہ اس کے خلاف جلوس نکلے اور وہ بھی جلوس نکالے؟
انہوں نےکہا کہ کل والے بیان پر قائم ہوں، تصادم میں حکومتوں کا نقصان ہوتا ہے، تصادم میں بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی تھی، عثمان بزدار سے رشتہ ختم نہیں ہوا، رشتے بنتے دیر سے ہیں، عثمان بزدار سیاسی طور پر اگر کہیں ٹکر مارنا چاہیں گے تو ہم ایک دو بار منع کریں گے۔ رہنما ق لیگ نے کہا کہ کل میں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان ایماندار ہیں اور مشکلات میں ان کے ساتھ تھے،کوشش کی کہ چیزوں کو درگزر کرکے ان کے ساتھ چلتے رہیں، الگ نہیں ہوئے ہیں، اب نئی صورت حال میں ایم کیو ایم اور بے اے پی سے مل کر مشاورت کے عمل کو وسیع کیا ہے۔
پیپلز پارٹی سے اتحاد کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری بہت مضبوط اور پائیدار شخصیت ہیں، جو بات کرتے ہیں کھڑے رہتے ہیں، وہ بالکل اتحادی ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ ہیں، ہم بھی ان کے اتحادی ہیں، کوئی دوسری رائے نہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بتایا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کافی مشکلات تھیں، زرداری صاحب کی خواہش تھی کہ وہ ایم کیو ایم کے ساتھ لڑائی آگے لےکر نہیں جانا چاہتے، ہمارے ساتھ پیپلز پارٹی کی لڑائی کا جو مسئلہ تھا وہ بھی زرداری صاحب نے حل کیا، ایم کیو ایم کے خدشات کو ڈسکس کیا ہے، ایک بار نہیں دو بار ملاقاتیں ہوئی ہیں۔