تحریک عدم اعتماد جب سے متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں جمع کرائی ہے ، سیاسی سطح پر ایک ہلچل سے مچی ہوئی ہے ، جوڑ توڑ اور ابہام کے پھیلتے ہوئے سائے پوری سیاسی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے دعوے کئے جارہے ہیں اور ان دعووں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے کسی کے پاس بھی ابھی واضح ثبوت نہیں ہے ،کوئی بھی اپنے اصل پتے شو نہیں کررہا ، ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے اس ماہ کے آخر میں اس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اپوزیشن پرامید ہے کہ اس کے پاس 172سے زیادہ ارکان اسمبلی کی حمایت ہے ،جبکہ حکومتی وزراء کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کے لئے اپنے 162 بندے بھی ووٹنگ کے لئے پورے نہیں ہوں گے، تیسر ا کردار اتحادیوں کا ہے ، جنہوں نے اپوزیشن اور حکومت کو تگنی کا ناچ نچوارکھا ہے اور آخر وقت تک وہ شاید اپنے فیصلے کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں ، ایک طرف تحریک عدم اعتماد کی ہلچل ہے ، تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان جلسے پر جلسہ کررہے ہیں اور اب پی ٹی آئی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عدم اعتماد تحریک پرووٹنگ سے ایک دن پہلے ڈی چوک اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا ، جس میں کم ازکم دس لاکھ افراد آئیں گے ، وزیراعظم نے یہ حکمت عملی کیوں اختیار کی ہے ؟
کیا وہ اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں ؟ یا د رہے کہ انہوں نے اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے والوں کو کئی بار وارننگ دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ایسے ارکان کا تحریک انصاف کے کارکن گھیراؤ کریں گے ،کیا پی ٹی آئی کے اندر واقعی ہی کوئی ایسا گروپ پروان چڑھ چکا ہے ،جو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے گا ، یاد رہے کہ حکومتی حلقے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ہمارے ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کی پیشکش کی جارہی ہے۔
دوسری طرف جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ ہے ،جس نے تحریک انصاف کے اندر ایک ایسا فارورڈ بلاک بنا رکھا ہے ،جو کسی بھی وقت کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے ،اگرچہ اس گروپ کا زیادہ تر مطمع نظر پنجاب میں تبدیلی لانا ہے اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر اپنے گروپ کے کسی بندے کو وزیراعلیٰ بنوانا ہے ،مگر گیم جس دائرے میں داخل ہوچکی ہے۔
وہاں مرکز اور صوبہ پنجاب کو تانابانا ایک ہوگیا ہے، اگر مرکز میں تبدیلی آتی ہے ،تو پنجاب میں لازمی آئے گی اوراگر پنجاب میں تبدیلی لانا ضروری ہے ،تو اس کے لئے پہلے مرکز میں تبدیلی لانا پڑے گی ،اس لئے سارا جوڑ توڑ پنجاب میں ہورہا ہے ، اگرچہ ایم کیوایم بھی ایک اتحادی کے طور پر حکومت کے ساتھ ہے،مگر حکومت کو اس سے زیادہ خطرہ نہیں ہے ، کیونکہ ایم کیوایم کو دینے کے لئے حکومت کے پاس بہت کچھ ہے ،مگرمسلم لیگ ق کو دینے کے لئے وزارت اعلیٰ نہیں ہے ،جبکہ وزیراعظم عمران خان ،عثمان بزدار کو ہٹا کر پرویزالہی کو وزیراعلیٰ بنانے کو کسی صورت تیار نظر نہیں آتے۔
یہی وہ ڈیڈ لاک ہے ،جس کی وجہ سے مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوپارہا اور اسی ڈیڈلاک سے فائدہ اٹھا کر متحدہ اپوزیشن نے آصف علی زرداری کی کوششوں سے چوہدری برادران کو یہ پیشکش کردی ہے کہ متحدہ اپوزیشن پنجاب کی وزارت اعلیٰ انہیں دینے کو تیار ہے ،معاملہ غالباً اسی نکتہ پر اٹکا ہواہے کہ پہلے مرغی آئے گی یا انڈہ۔اگر وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے بعد تبدیلی آجاتی ہے ،تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ پنجاب میں تبدیلی کے بعد وزارت اعلیٰ پرویزالہی کو ہی دی جائے گی ،غالباً یہی وہ نکتہ ہےکہ جس پر اپوزیشن سے بھی چوہدری برادران کا کو ئی معاملہ حتمی شکل اختیار نہیں کررہا۔
ادھر تحریک انصاف سے بغاوت کی چنگاری جنوبی پنجاب میں بھی سلگ رہی ہے ، پی ٹی آئی کے اندر جہاں جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کے منحرف اراکین اسمبلی پارٹی کے لئے درد سر بن گئے ہیں،جن میں زیادہ تعداد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پر مشتمل ہے ، وہاں کچھ ایسے ارکان اسمبلی بھی ہیں ، جو اگرچہ اس گروپ میں شامل نہیں ،لیکن وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں ،ایسے ہی ایک رکن قومی اسمبلی ملتان کے حلقہ 154کے ایم این اے احمدحسن دیہڑ بھی ہیں۔
جنہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ دھمکی دی ہے کہ اگران کے تحفظات دور نہ کئے گئے ،تو وہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے ،انہوں نے نام لئے بغیر ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر اور ایک معاون خصوصی پر بھی الزامات لگائے ہیں کہ وہ ان کے حلقہ میں مسلسل مداخلت کررہے ہیںاور ان کے ترقیاتی کاموں اور عوامی خدمت کے منصوبوں میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، احمد حسن دیہڑ کے بیان پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کچھ طنزیہ تبصرے کئے۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیو پیغام جاری کئے بغیر بھی بات کی جاسکتی تھی ،ادھر رکن پنجاب اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری محمد ندیم قریشی نے کھل کر ملک احمد حسن دیہڑ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس موقع پر پارٹی کے ساتھ اس قسم کا رویہ اختیار کرنا کسی بھی ایسے رکن اسمبلی کوزیب نہیں دیتا، جو تحریک انصاف کی حمایت سے جیتا ہو۔
شاہ محمود قریشی نے تو ترین اور علیم خان گروپ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ان کے ساتھ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نہیں ہیں اور پی ٹی آئی میں یہ گروپ کہیں نظر نہیں آرہا اور بہتر یہی ہے کہ وہ گروپ بندی چھوڑ کر کھل کر عمران خان کی حمایت کا اعلان کریں، دیکھا جائے تو اس وقت دباؤ اپوزیشن کی بجائے حکومت پر ہے ، کیونکہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرکے ترپ کا آخری پتا پھینک چکی ہے ،اب اسے ناکام بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے حکومت ہرحربہ استعمال کررہی ہے ،لیکن ابھی گیم اوپن ہے اور کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،تاہم جس حد تک سیاسی ہلچ مچ چکی ہے ،اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حالات سیاسی عدم استحکام کی طرف جارہے ہیں اور تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے ،یہ عدم استحکام اب ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔