اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے آنے کےبعد ملکی سیاست طوفانوں اور بحرانوں میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کی قیادت نے ٹھوس حکمت عملی کے ذریعے حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹانے کا ’’سیاسی منصوبہ‘‘ ایک مضبوط لائحہ عمل کو مرتب کرکے تیار کیا ہے۔
حکومت کے ایوانوں میں اس عدم اعتماد کی تحریک کے آنے سے قبل یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ اپوزیشن اس معاملہ میں کبھی بھی متحدہ پلیٹ فارم پر نہیں آ سکتی کیونکہ اس سلسلہ میں پی ڈی ایم کے اجتماعی فیصلہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت انحراف کرکے علیحدہ ہوگئی تھی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے اپنی ’’سیاسی فراست‘‘ کا جال بچھا کر حکومت کو کسی اور زاویے کا پیغام دیا لیکن اگلے ہی مرحلے ’’درون خانہ‘‘ پی ڈی ایم کے سربراہ اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے مل کر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر تابڑ توڑ حملہ کرنے کے لئے حکومت کے اتحادیوں سے بھی مذاکرات کا آغاز کردیا۔
یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے دانستہ طور پر یہ ’’سیاسی فارمولہ‘‘ اختیار کیا ہے کیونکہ وزیراعظم اور ان کے وزیروں اور مشیروں نے ’’کپتان‘‘ کو باور کرا رکھا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنی صوبائی حکومت سندھ کو قائم رکھنے کے لئے کسی صورت بھی پی ڈی ایم سے تعاون نہیں کرے گی اور تحریک عدم اعتماد کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بدلتی ہوئی سیاست کے تمام ’’خدو خال‘‘ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی ’’حتمی مشاورت‘‘ سے طے کئے گئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اس سارے معاملات میں قدم قدم پر اپنے قائد کی راہنمائی لے رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے مسلسل کوآرڈی نیشن میں ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس بات کو واشگاف طور پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ سیاست کے اس ’’نئے کھیل‘‘ میں میاں نواز شریف کا مرکزی کردار ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی غیر جانبداری کی فضا ء نے حکومت میں شامل بڑے بڑے ’’سیاسی جغادریوں‘‘ کو ’’حواس باختہ‘‘ صورتحال کا شکار کردیا ہے۔
ایک وفاقی وزیر ’’خود کش بمبار‘‘ بننے کی خواہش کا اظہار کرکے وزیراعظم سے اپنی وفاداری کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسرے وفاقی وزیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت کو استعمال کرنے کے دعوے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے نوجوان وفاقی مشیر تو آئے دن حکومت کے لئے مسائل اور مشکلات پیدا کرنے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی قیادت کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’کپتان‘‘ عوامی جلسوں سے خطا ب کرکے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ اپنے وفا دار کارکنوں اور عوام کے ذریعے کرنے کے خواہشمند ہیں۔
عوامی اجتماعات میں وہ اپوزیشن کے بڑے راہنمائوں کے ناموں کو بگاڑ کر یہ تاثر دینے کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو ہر طریقے سے شکست سے دو چار کر یں گے جبکہ ان کےاسپیکر قومی اسمبلی اپنے صوبے میں اس طرح کی گفتگو فرما رہے ہیں کہ کسی صورت بھی اس عدم اعتماد کی تحریک کے معاملہ میں وہ غیر جانبدار نہیں ہیں۔ مشیر قانون بابر اعوان تو مذکورہ تحریک کو قانون کے ذریعے پاش پاش کرنے کی آرزو لئے ہوئے ہیں جبکہ چودھری شجاعت حسین نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم کو پیغام بھی بھجوایاہے کہ ایسی زبان کا استعمال آپ کے مرتبہ کے شایان شان نہیں ہے۔
اپوزیشن کی قیادت نے واشگاف طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں اور حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی مثبت انداز کے مذاکرات جاری ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے اپنی پارٹی کے اعلیٰ مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر متفقہ لائحہ عمل طے کریں گے۔ ایم کیو ایم، جی ڈی اے، باپ اور دیگر آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر حکومت یا اپوزیشن کے کیمپ کی حمایت کا اعلان باہمی مشاورت سے کریں گے۔
صوبائی دارالحکومت بھی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومتی پارٹی سے ناراض ہونے والے جہانگیرترین گروپ اور علیم خان کی سربراہی میں بننے والے گروپ کے علاوہ ہم خیال گروپ کے ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ بزدار کی جگہ کسی ’’نئے چہرے‘‘ کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر دیکھنے کے لئے بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت کی وجہ سے ’’چودھری برادران‘‘ سمیت سب ہی ان کی ’’مہربانیوں‘‘ کے منتظر ہیں۔
آصف علی زرداری نے ’’چودھری برادران‘‘ کی اہمیت کے پیش نظر اپوزیشن کی قیادت کو ان سے رابطوں کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو بھی میاں نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لئے بھجوایا گیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر وزیر اعلیٰ بزدار نے وزیراعظم کو ملاقات کے دوران یہ پیش کش کر دی کہ وہ آپ کے احکامات پر آن واحد میں اس ’’منصب جلیلہ‘‘ کو چھوڑ دیں گے لیکن وزیراعظم نے ان کو اس اقدام سے روک دیا۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ق) کی قیادت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین چودھری پرویز الٰہی کو اس عرصے کے لئے اس منصب پر لانا چاہتے ہیں جس کے لئے صرف ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت اور گرفت کی وجہ سے یہ بات واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ حکومتی پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات اور بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی مرضی کے بغیر کوئی بھی یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور ان کے فرزند ارجمند میاں حمزہ شہباز شریف پارٹی قیادت کی مشاورت سے اس معاملہ میں لائحہ عمل مرتب کر چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے تمام مقدمات کا جس دلیرانہ انداز میں دونوں نے مقابلہ کیا ہے اور اپنے قائد میاں نواز شریف سے وفا داری کے تمام مرحلوں کو نبھایا ہے اس سے یہ عیاں ہو تا ہے کہ میاں شہباز شریف ہی اپنے قائد کی مشاورت سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار کا فیصلہ کریں گے اورسب پارٹیوں کو ان کی ’’نظر عنایت‘‘ کے بغیر کچھ بھی نہیں مل سکے گا۔