• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوانہ وسیم

پیارے بچو! آج ہم آپ کو چار دوستوں کی کہانی سناتے ہیں۔ سلیم، کلیم، ظفر اور محمودجو بہت گہرے دوست تھے اور ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔

ان کے گھر بھی قریب قریب تھے۔ کرکٹ بھی یہ لوگ ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ ان چاروں میں محمود بہت سمجھدار اور سلجھا ہوا بچہ تھا، جبکہ باقی تینوں بےحد شرارتی تھے۔

ایک دن یہ لوگ اسکول سے گھر جا رہے تھے گرمیوں کے دن تھے اس لیے گلی میں بالکل سناٹا تھا اچانک ان کی نظر سامنے والے بنگلے پر پڑی جہاں آم کا گھنا درخت تھا اس پر بڑے بڑے آم لٹکے ہوئے تھے یہ گھر خالی تھا، اس میں چوکیدار رہتا تھا کیونکہ گھر کے مالک بیرون ملک مقیم تھے۔

اتنے سارے پکے ہوئے آم دیکھ کر بچوں کا دل للچا گیا اور وہ آم توڑنے کے منصوبے بنانے لگے، پھر انہوں نےاس گھر کی نگرانی کی تو پتہ چلا کہ دو سے تین بجے دوپہر میں چوکیدار گھر سے باہر روٹی لینے جاتا ہے بچوں نے سوچا یہی وقت سب سے مناسب ہے لہذا دوسرے دن وہ چوکیدار کے جانے کا انتظار کرنے لگے اور جیسے ہی وہ گھر سے باہر گیا بچوں نے گیٹ سے اندر کو دنے کا فیصلہ کرلیا لیکن عین وقت پر محمود نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ چوری کے کام میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا۔

تینوں نے اسے بہت سمجھایا کہ بڑا مزہ آئے گا تم ہمارے ساتھ چلو لیکن محمود نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ، ’’چوری کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے، میں تم لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گا۔‘‘

تینوں دوست محمود کا مذاق اڑانے لگے کہ، تم ڈرپوک ہو اسی لئے ہمارے ساتھ نہیں آ رہے پھر وہ تینوں گیٹ کے اندر کود گئے۔ محمود باہر کھڑا تھا کہ اچانک تینوں بچوں کے چیخنے چلانے اور کتے کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔

خوف اور دہشت سے بچوں کی دلخراش چیخیں گھر سے باہر تک آ رہی تھیں۔ محمود کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے دوستوں کی مدد کیسے کرے آخر اس نے اردگرد کے گھروں کی بیل بجائی اور لوگوں سے اپنے دوستوں کی مدد کرنے کی درخواست کی۔

لوگ ڈنڈے لے کر اس گھر میں کودے ،تا کہ بچوں کو کتے سے بچا سکیں، اتنی دیر میں چوکیدار بھی آگیا اس نے گیٹ کھولا اور جا کر کتے کو قابو کیا جو غصے سے پاگل ہو رہا تھا محمود کی نشاندہی پر ان زخمی بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا گیا ان کے والدین افسوس اور شرمندگی کی وجہ سے کسی سے نظر بھی نہیں ملا پا رہے تھے کیونکہ ان کے بچوں نے کسی کے گھر میں چوری کرنے کی کوشش کی تھی، جبکہ ان کے ہا تھ کچھ بھی نہ آیا تھا۔ الٹا زخمی حالت میں اسپتال جانا پڑا جہاں ان کی مرہم پٹی ہوئی اور کتے کے کاٹے کے ٹیکے بھی لگے اور شدید تکلیف بھی ہوئی اور ایک ہفتے اسکول سے چھٹی کرنی پڑی۔ اس حماقت کی وجہ سےانہیں صرف ذلت اور رسوائی ہی ملی۔

محمود نے اپنے دوستوں کو سمجھایا کہ،’’ سچے دل سے اللہ سے توبہ کرو ‘‘۔بچوں نے توبہ کی اور والدین سے بھی وعدہ کیا کہ ’’آئندہ ہم کوئی غلط کام نہیں کریں گے ۔‘‘صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے پڑھائی پر بھرپور توجہ دی اور سالانہ امتحان میں بہترین نمبروں سے کامیاب ہوئے اس طرح اپنے اساتذہ اور والدین دونوں کے دل جیت لئے۔ انہوں نے محمود کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جس نے ان کو سیدھا راستہ دکھایا اور جان بچانے میں ان کی مدد کی۔

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ اچھے اور مخلص دوست بنانا چاہیے اور لالچ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔