• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب کا ایک بار پھر سیاست میں بھرپور کردار

سیاسی صورتحال میں اس قدر بے یقینی آچکی ہے کہ اگلے لمحہ کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، واقعات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ہر نیا لمحہ کسی انہونی کا پتا دے رہے ہیں ، جب سے اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے ، حالات کا پینڈورا باکس ہے کہ کھلتا ہی چلاجارہا ہے، کہیں بغاوت کرنے والے اراکین اسمبلی ہیں، جو پی ٹی آئی سے رخ موڑ چکے ہیں اور کہیں اپوزیشن کے داؤپیچ ہیں ،جو ہر نئے دن کے ساتھ بدلتے حالات کو جنم دے رہے ہیں۔ 

اس ساری صورتحال میں جنوبی پنجاب کا ذکر اس لئے باربار آیا کہ اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کےنصف درجن سے زائد رکان اسمبلی بھی ان منحرفین میں شامل ہیں ،جنہوں نے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے، ملتان کے دو اراکین سمیت جنوبی پنجاب کے چھ ارکان قومی اسمبلی نے اعلانیہ طور پر تحریک انصاف کا ساتھ نہ دینے کا عندیہ دیا ہے، ملتان میں ایم این اے احمد حسن ڈیہڑ وہ واحد رکن اسمبلی ہیں ،جو سندھ ہاؤس یا کسی دوسری جگہ روپوش نہیں ہوئے ، بلکہ سامنے رہ کر اختلاف رائے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ 

ان کے خلاف ملتان میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور عہدے داروں نے کئی مظاہرے بھی کرائے ،ان کے پتلے بھی سربازار جلائے گئے، ان کے گھر پر حملہ کی دھمکیاں بھی دی گئیں، شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا ،لیکن وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنا آخری الٹی میٹم یہ دیا ہے کہ اگر حکومت آٹا ،چینی اور گھی کی قیمت 2018ء کی سطح پر لے آئے ،تو وہ عدم اعتماد کی تحریک میں حکومت کی حمایت کا اعلان کردیں گے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نہیں، عوام اور اپنے حلقہ کے ووٹرز کی جنگ لڑ رہے ہیں ، احمد حسن ڈیہڑ وہ رکن اسمبلی ہیں ، جنہوں نے ہمیشہ شاہ محمود قریشی اور ملک عامر ڈوگر کے خلاف پارٹی میں رہ کر آواز بلند کی ہے ،ملتان کی سیاست میں تحریک انصاف کے اندر جو تنظیمی دراڑیں موجود ہیں۔ 

ان کے حوالہ سے احمد حسن ڈیہڑ نے ہمیشہ ان دونوں شخصیات کو موردالزام ٹہرایا ہے ،انہیں فنڈز ، منصوبوں ،سیاسی عہدوں اور ملتان میں تقرریوں و تعیناتیوں کے حوالے سے ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ،وہ خود کہتے ہیں کہ وہ دوسال سے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے احتجاج کررہا ہوں ،مگر قیادت کے سامنے کبھی میری شنوائی نہیں ہوئی، آج میں کس منہ سے اپنے ووٹرز کے سامنے جاؤں ،جب میں ان کے لئے کچھ کر ہی نہیں سکتا ، اگرچہ ان کے ان الزامات پر شاہ محمودقریشی نے ہلکے پھلکے انداز میں طنزیہ باتیں کی ہیں ،تاہم وہ ان الزامات سے صریحاً انکار نہیں کرسکے۔ 

دوسری طرف رانا قاسم نون ہیں ،جو ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور شجاع آباد ،جلال پور پیروالا میں نون فیملی عرصہ دراز سے سیاسی اہمیت موجود ہے ،2016ء کے ضمنی انتخاب میں وہ ن لیگ کی جانب سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ،بعدازاں 2018ءمیں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور ایم این اے منتخب ہوئے ، وہ بھی ان ارکان اسمبلی میں شامل تھے ،جو ہمیشہ پارٹی میں نظرانداز کرنے کا شکوہ کرتے رہے ، کیونکہ ملتان میں شاہ محمود قریشی نے اپنا گروپ بنا رکھا ہے ، جس کی وجہ سے صرف وہی پارٹی عہدے دار اور اراکین اسمبلی مراعات سے مستعفید ہوتے رہے ، جوان کے گروپ میں شامل تھے ، مظفرگڑھ سے سید باسط بخاری ، عامر طلال گوپانگ، بھکر سے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور تونسہ سے خواجہ شیراز تحریک انصاف کے باغی ارکان میں شامل ہیں ،یوں جنوبی پنجاب ایک بار پھر سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرنے جارہا ہے۔ 

یاد رہے کہ جب 2018ء کے الیکشن ہورہے تھے ،تو صوبہ محاذ بنا کر مسلم لیگ ن کے بہت سے اراکین اسمبلی کو اس میں شامل کیا گیا تھا ، جس نے بعد میں تحریک انصاف سے سیاسی اتحاد کرکے اس میں شمولیت اختیار کرلی تھی ، ایک بار پھر یہ تاریخ دھرائی جارہی ہے اور تحریک عدم اعتماد کے موقع پر تحریک انصاف کے نصف درجن ارکان اسمبلی دوسری طرف جاچکے ہیں ،ان میں سے کوئی رکن بھی ایسا نہیں ہے ،جس نے پارٹی کے اندررہ کر ماضی میں شکوہ نہ کیا ہو ،مگران کی شکایات پر پارٹی قیادت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ،رانا قاسم نون نے اس حوالے سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حلقہ کو فنڈز ،منصوبوں کے حوالے سے ہمیشہ نظرانداز کیا گیا، بار بار توجہ دلانے کے باوجود پارٹی قیادت نے ہمیشہ امتیازی سلوک کرتے ہوئے ہمیں نظرانداز کیا ،جس کی وجہ سے اب ہمارا پارٹی میں رہنا ،بے معنی ہوچکا ہے۔ 

تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ، اس کا فیصلہ تو کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوگا ، یہ اجلاس بھی مقررہ آئینی مدت کے اندر نہیں بلایا گیا اور ریکوزیشن کے 14دن کے اندر یہ اجلاس بلایا جانا ضروری تھا ،مگر اوآئی سی کانفرنس کو بنیاد بنا کر اسے 25مارچ کو طلب کیا گیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا مرحلہ کس طرح طے ہوتا ہے ،اسپیکر قومی اسمبلی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین کے تحت مروجہ قواعد و ضوابط کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے مرحلے کو نمٹائے ،اپوزیشن بظاہر خاصی مطمئن نظر آتی ہے ،کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر دراڑ پڑ چکی ہے اور حکومت کے اتحادی بھی ابھی تک کھل کر حکومت کا ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ 

یہ صورتحال تحریک انصاف کے لئے خوش آئند نہیں ہے ، مگر اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان بڑے مطمئن نظر آتے ہیں اور اپنے جلسوں میں انہوں نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ منحرف ارکان اسمبلی کس حدتک اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں ،ظاہر ہے کہ انہیں ایک بڑے دباؤ کا سامنا ہے ،شوکاز نوٹس اور ان پر لٹکتی نااہلی کی تلوار اپنی جگہ موجود ہے ، تاہم آنے والے دنوں میں جب 25مارچ کے بعد تحریک عدم اعتماد کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگا ،تو حقیقی صورتحال سامنے آئے گی۔ 

اگرچہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے ایک رٹ پٹیشن دائر کررکھی ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس بارے کیا فیصلہ دیتی ہےاور اسلام آباد میں 27مارچ کو امن وامان کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید