• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

او آئی سی: اپوزیشن کا سیاسی بلوغت کا مظاہرہ

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا48 واں دو روزہ اہم اجلاس اسلام آباد میں بخیروخوبی ہی نہیں بلکہ پوری شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ ایک طویل عرصے بعد پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد امت مسلمہ کی یکجہتی کا ناقابل فراموش منظر پیش کر رہا تھا جس میں مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز اور ابھرتے ہوئے مواقعوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 

معزز مہمانان گرامی کی آمد کے موقعہ پر اسلام آباد کو رنگ برنگے پرچموں خیر مقدمی سلوگنز اور اہم شخصیات کی قدم آدم تصاویر سے مزئین کیا گیا تھا اور وفاقی دارالحکومت کی شاہراہوں کو خصوصی طور پر اسلامی طرز تعمیر سے مزئین کیا گیا تھا۔ 

اجلاس میں فلسطین، افغانستان اور کشمیر سمیت دیگر مسلم ممالک کے دیرینہ مسائل پر مختلف پہلوئوں سے اظہار خیال کیا گیا، مختلف اور متعدد اہم باتوں کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم تھا کہ اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی بطور ’’خاص مہمان‘‘ شریک ہوئے۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کوئی چینی وزیرخارجہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کر رہا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں چینی وزیر خارجہ کی شرکت کو ایک ’’بڑا پیغام‘‘ قرار دیا۔ 

بھارت کے زیراتنظام کشمیر کی حریت کانفرنس کے راہنمائوں کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن مودی حکومت نے انہیں اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی۔ سعودی وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر اور افغانستان میں صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ سعودی عرب افغانستان میں امن وسلامتی کیلئے اسلامی ممالک کی کوششوں کی توثیق کرتا ہے۔ اجلاس میں وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ، مستقل نمائندوں، 15 مبصر ممالک کے نمائندوں سمیت 675 سے زائد مبصرین نے شرکت کی۔ 

سیاسی مبصرین اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے اسلامی ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس کو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ بعض ناقدین کا یہ دعویٰ اپنی جگہ کہ او آئی سی ایک کمزور تنظیم ہے، جس کی عالمی سطح پر کوئی خاص حیثیت نہیں لیکن اسلام آباد میں ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس نے عالمی طاقتوں کو اسلامی ممالک کی یکجہتی اور مشترکہ، متنازعہ امور پر جس ہم آہنگی کا پیغام دیا ہے وہ خاصا طاقتور ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کانفرنس کے انعقاد سے کچھ ہی دن پہلے ملک میں احتجاج کے بادل منڈلارہے تھے لیکن اڑتالیسویں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے قریب آتے ہی تمام اسٹیک ہولڈرز نے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا اور اپنے پیغامات اور بیانات سے پاکستان آنے والے تمام مہمانوں کا پرجوش انداز میں شکریہ بھی ادا کیا اور پاکستان کیلئے اس کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ 

ملکی اور خارجی سطح پر حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا تو اس صورتحال میں اس کانفرنس کا انعقاد یقیناً حکومت کی کامیابی ہے اور وہ بھی اس طرح منعقد ہوئی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک بڑی تعداد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ تو یقیناً گورنمنٹ اس بات کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔ تاہم اگر اس یادگار موقعہ پر جہاں ہم اسلامی دنیا کے ممالک سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے تو داخلی سطح پر بھی ہم آہنگی اور یگانگت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپوزیشن کو بھی شامل کر لیا جاتا تو اس سے نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ خارجی سطح پر ایک مثبت پیغام جاتا۔کیونکہ اس اہم اور تاریخی موقع پر اپوزیشن نے بھی سیاسی بلوغت کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔

2018 میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہونے والے عمران خان کے یوں تو ابتداء سے ہی طرز حکمرانی میں تجربے کے فقدان، پاکستان کے سیاسی کلچر سے اجنبیت سمیت دیگر کئی عوامل کے باعث مشکلات کا سامنا رہا لیکن کم وبیش چار سال کا عرصہ گزرنے کو آیا ہے صورتحال میں مطلوبہ بہتری نہیں آسکی اور رواں ماہ مارچ ان کے اقتدار کیلئے ایک آزمائش بنا ہوا ہے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک میں اراکین اسمبلی کی تعداد جن کی اکثریت بدستور اپوزیشن کے ساتھ ہے اس صورتحال میں وہ اپنی حکمرانی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کیخلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25مارچ کو طلب کیا ہوا ہے گو کہ اپوزیشن نے اجلاس تاخیر سے بلانے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر پر آئین شکنی کا الزام اور اس حوالےسے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے تاہم طے شدہ نئے شیڈول کے مطابق 25مارچ کو پارلیمانی روایات کے مطابق اجلاس کے نئے سیشن کے آغاز کے پہلے دن اس دوران انتقال کر جانے والے کسی رکن اسمبلی یا کسی قومی سطح کے سانحے پر افسوس اور فاتحہ خوانی کی رسمی کارروائی کے بعد اجلاس ختم کر دیا جاتا ہے لیکن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے یہ اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا ہے اور جمعہ کو اجلاس کی کارروائی کا پہلا دن ہو گا۔ 

یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اس لئے قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ اجلاس ہنگامہ آرائی سے بھرپور ہوگا کیونکہ ایوان میں متحدہ اپوزیشن کی حاضری بھی بھرپور ہوگی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے قائدین اور پارلیمانی لیڈرز بھی ایوان میں موجود ہونگے اور ان کے مقابل حکومتی نشستوں پر اپوزیشن ارکان کا سامنا کرنے کیلئے مراد سعید سمیت کئی جوشیلے ارکان بھی۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اجلاس تاخیر سے بلانے پر احتجاجاً ایوان میں دھرنا دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہے لیکن نئی صورتحال میں اگر وہ دھرنا نہیں بھی دیتے تو حکومت کی یہ پوری کوشش ہوگی کہ اجلاس کو رسمی کارروائی کی تقریروں کے بعد فوری ختم کر دیا جائے یا زیادہ سے زیادہ جمعہ کی نماز کے وقت تک ہی اجلاس چلایا جائے جبکہ اپوزیشن کے ارکان کا مطالبہ ہوگا کہ اجلاس نماز جمعہ کے بعد بھی جاری رکھا جائے کیونکہ 22سے 27مارچ تک تعطیلات ہیں اور اس طرح 28مارچ کو ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کیخلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پر تقاریر ہونگی۔

اسپیکر کی کوشش ہوگی کہ بحث کو چار دن سے بڑھا کر آگے ماہ صیام کے آغاز تک لے جایا جائے دوسری طرف اپوزیشن کے ارکان اس کوشش کو ناکام بنانے کیلئے ایوان میں بھرپور مزاحمت کریں گے۔ یاد رہے کہ اجلاس سے ایک دن قبل 27مارچ کو وزیراعظم نے ملک بھر سے اپنی جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کو پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہونے والے اجتماع میں شرکت کی دعوت دے رکھی ہے تاہم اب سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ان کے حکم پر یہ اجتماع ڈی چوک کی بجائے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ہوگا۔ 

وزیراعظم اور حکومتی وزرا کا دعویٰ ہے کہ اس اجتماع میں دس لاکھ لوگ شرکت کریں گے اور یہ اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم اجتماع ہوگا اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی کے آغاز سے ایک دن قبل اسلام آباد میں بڑی تعداد میں حامیوں کی افرادی قوت جمع کر کے وزیراعظم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں بادی النظر میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر سے ایوان کے اندر اپوزیشن پر دبائو ڈالنا چاہتے ہیں بہرحال اس موقع پر وزیراعظم کی تقریر غیر معمولی طور پر اہم ہو سکتی ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید