محمد اسلم
ساتھیو! پرانے زمانے میں کسی دانا و بینا شخص نے حکمت و ہدایت کی خاطر اس پھل کا تذکرہ کیا تھا کہ دنیا میں ایک عجیب و غریب "درخت" پایا جاتا ہے جو شخص اس درخت کاپھل ایک مرتبہ کھا لے گا، ہمیشہ جوان و توانا رہے گا۔ بادشاہ نے سنا تو اُس نے سوچا،اگر اس درخت کا پھل مجھےمل جائے تو کیا بات ہے، چنانچہ اپنے مشیروں اور وزیروں سے ذکر کیا۔ سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ ،’’جہاں پناہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیں تو رعایا ہمیشہ آپ کے زیرِ سایہ آباد اور خوش و خرم رہے گی۔‘‘
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مشیر کو اس درخت اور پھل کی تلاش میں روانہ کر دیا۔ وہ بے چارہ مہینوں جنگل جنگل، صحرا صحرا مارا مارا پھرتا رہا، لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ ہر کسی نے یہی کہا ، کہ بھلا ایسا درخت اور پھل بھی ہوتا ہے کیا؟۔ ”کسی نے اچھا مشورہ دیا کہ، “میاں! کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ جدھر سے آئے ہو، ادھر کو لوٹ جاؤ۔‘‘
وہ شخص اسی طرح کی نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اڑواتا رہا۔ لیکن تھا دھن کا پکا، برابر جگہ جگہ کی خاک چھانتا آگے بڑھتا گیا۔جب ایک برس بیت گیا، اْس علاقے کے گوشے گوشے، چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا، تب مایوس ہو کر اپنے وطن واپس لوٹنے لگا۔ اس قدر محنت اور تکلیف ضائع جانے سے بے حد رنجیدہ تھا۔ بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جا رہا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ، راستے میں کسی نے بتایا کہ اس علاقے میں ایک آدمی رہتاہے جو بہت دین دار ،عالم ہے، تم اُس سے ملو ہوسکتا ہے تمھارے سوال کا جواب مل جائے۔
مشیر نے سوچا کہ اگر وہ اس شیخ عالی مرتبت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کرے تو ممکن ہے مایوسی راحت میں بدل جائے۔ اُن کی صورت دیکھتے ہی مشیر کا اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا ان کے قدموں میں جا گرا، اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پاؤں بھگو دیے۔
شیخ نے اُسے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا ’’کیا بات ہے؟، اس قدر پریشانی کا سبب کیا ہے؟، تفصیل سے بیان کرو‘‘۔
اس نے کہا،’’حضرت! کیا کہوں، جس کام کے لیے ایک برس پہلے وطن سے نکلا تھا، وہ کام نہیں ہوا۔ اب سوچتا ہوں، واپس جا کر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔ اس کے عتاب کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آپ میرے حق میں اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔ بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ کہتے ہیں اس درخت کا پھل کوئی کھا لے توجوان اور توانا رہے گا۔ مہربانی فرما کر میری مشکل دور کر دیں‘‘۔
یہ سن کر شیخ ہنس پڑے اور کہا،’’سبحان اﷲ! بھائی تم نے بھی سادہ لوحی کی حد کر دی ۔ ارے تم نے اتنا وقت خوامخواہ ضائع کیا۔ پہلے ہی میرے پاس چلے آتے۔ اب غور سے سنو کہ وہ شجر”کتاب‘‘ ہے اور اْس سے حاصل ہونے والا پھل ’’علم ‘‘ہے۔ تو اور تیرا بادشاہ جہالت کی وجہ سے ظاہری پھل اور درخت کا دھوکہ کھا گئے، جبکہ یہ درخت اور پھل تو باطنی ہیں۔
پیارے بچو!علم ایک روشنی ہے جس کے ذریعے ہر چیز کو اس کے اصل رنگ اور صورت میں دیکھا جا سکتاہے۔ علم ایک بڑی طاقت ہے جس کی بدولت انسان نے ہر دور میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ علم ایک بہت بڑا گہرا سمندر ہے اس لیے جس قدر ممکن ہواس میں کمال حاصل کریں۔