آسٹریلیا کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد پاکستان کی نظر یں اب وائٹ بال سیریز پر مرکوز ہیں۔ لاہور تینوں ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کی میزبانی کرے گا۔ آسٹریلوی ٹیم اس فارمیٹ میں نسبتا کمزور ہےاسے کئی صف اول کے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں ، پاکستان کے خلاف اچھا موقع ہے کہ وہ ٹیسٹ سیریز کا حساب برابر کردے۔
آسٹریلیا کے تجربہ کار بیٹر اسٹیو اسمتھ بائیں کہنی کی انجری کے سبب پاکستان کے خلاف ون ڈے اور ٹی20 میچوں کی سیریز سے باہر ہو گئے ہیں۔ ان کے نہ ہونے سے ایرون فنچ کی ٹیم مزید کمزور ہوگئی ، جبکہ کئی کھلاڑی بھارتی لیگ کی وجہ سے پاکستان میں ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی سیریز نہیں کھیلیں گے۔ آسٹریلین ٹیم کے فزیو تھراپسٹ ایلکس کونٹوریس نے کہا کہ پاکستان کے خلاف تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز کے آخری مراحل میں اسمتھ کو کچھ تکلیف ہوئی تھی۔
ٹیم فزیو تھراپسٹ نے مزید کہا کہ سیریز سے دستبرداری کا مقصد یہ ہے کہ انہیں کہنی کی انجری سے بحالی کے لیے مناسب وقت ملے تاکہ آسٹریلیا کے لیے ان کی مسلسل دستیابی اور اچھی کارکردگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسٹیو اسمتھ نے کہا کہ وہ اپنی انجری کو بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ اسٹیو اسمتھ کی جگہ کوئنز لینڈ کے لیگ اسپنر مچل سویپسن کو منگل سے لاہور میں شروع ہونے والے تین ون ڈے میچوں کی سیریز کے ساتھ ساتھ 5 اپریل کو ہونے والے واحد ٹی20 کا حصہ بھی بنایا جائے گا۔
پاکستان کے خلاف سیریز میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے مچل سویپسن نے آج تک ون ڈے کرکٹ میں آسٹریلیا کی نمائندگی نہیں کی البتہ وہ سات ٹی20 انٹرنیشنل میچ کھیل چکے ہیں۔ چیف سلیکٹرز جارج بیلی نے کہا کہ ہمارے پینل نے متبادل بیٹسمین کو منتخب نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہمارے پاس اسکواڈ میں کافی آپشنز موجود ہیں۔
اسی لئے مچل سویپسن کو محدود اوورز کی کرکٹ کے اسکواڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، ان کی موجودگی ہمیں بولنگ کے شعبے میں اضافی آپشنز فراہم کرے گی اور گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں رہنے کی وجہ سے وہ وہاں کی کنڈیشنز سے بھی واقف ہیں۔ آسٹریلیا کا ون ڈے اسکواڈ ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ایرون فنچ(کپتان)، ایکس کیری، ٹریوس ہیڈ، مارنس لبوشین، مچل مارش، بین میک ڈرموٹ، مارکس اسٹوئنس، مچل سویپسن، ایڈم زمپا، شان ایبٹ، ایشٹن ایگار، جیسن بہرنڈروف، بین ڈوارشس، نیتھن ایلس، کیمرون گرین، جوش انگلس۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں جو بھی ہاٹ سیٹ پر آتا ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کو نمبرایک بنانے کا دعوی کرتا ہے لیکن یہ بیانات دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ2016کے بعد سے پاکستانی ٹیم ٹیسٹ فارمیٹ میں مسلسل نیچے آئی ہے ہم دنیا کی ٹاپ فور ٹیموں کو ہوم گراونڈ پر شکست دینے میں ناکام جبکہ بیرون ملک تو ان کو ہرانا شائد ناممکن بن گیا ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے خلاف پاکستان ٹیم کی شکست بھی کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا شائد خود کرکٹر رہے ہیں اس لئے ان کا شکست کے بعد بیان حقیقت کے قریب معلوم ہوتا ہے رمیز راجا کہتے ہیں کہ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ پاکستان ٹیم نے ورلڈ نمبر ون ٹیم کو کیسے ہرانا ہے۔
پاکستان کی فائٹ کرنے کی صلاحیت پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کراچی میں پانچ سو اور لاہور میں 350رنز کے ہدف میں بولڈ ہونے کی رائے دینا مضحکہ خیز ہے۔ اس وقت آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں آسٹریلیا پہلے نمبر پر ہے۔پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں ایک صفر سے شکست دینے قبل آسٹریلیا نے ایشیز سیریز میں انگلینڈ کو چار صفر سے شکست دی تھی۔بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ روابط منقطع ہے۔جبکہ نیوزی لینڈ تیسرے اور انگلینڈ چوتھے نمبر پر ہیں۔
پاکستان حالیہ سالوں میں ان ٹیموں کو ہرانے میں ناکام رہی۔ گذشتہ سال پاکستان نے ہوم گراونڈ میں جنوبی افریقا کو دو صفر سے شکست دی تھی۔جنوبی افریقا ٹیسٹ رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ جبکہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپین شپ میں بھی پاکستان ٹیم نیچے چلی گئی ہے۔ آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد پاکستان ٹیم کی آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں تنزلی ہوئی ہے جس کے بعد دوسری سے چوتھی پوزیشن پر چلی گئی۔آسٹریلیا سے سیریز میں شکست کے بعد پاکستان کی ٹیسٹ چیمپین شپ ٹیبل میں تنزلی ہوگئی ہے۔پاکستان کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 44 ہے، جو ٹیبل کے مطابق 52 اعشاریہ38 فیصد ہے، اس سیریز سے قبل پاکستان کے پوائنٹس کی پرسنٹیج 66اعشاریہ67 تھی۔
پوائنٹس ٹیبل پر آسٹریلیا بدستور پہلے، جنوبی افریقا دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے، آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا موجودہ سائیکل 2023 تک جاری رہے گا۔پنڈی ٹیسٹ کے دوران جب اظہر علی نے سست روی سے سنچری بنائی تو ایک صحافی نے پریس کانفرنس میں اظہر علی سے ان کی دفاعی بیٹنگ کے بارے میں سوال کیا تو اظہر علی نے ناراض ہوکر صحافی کو جواب دینے سے گریز کیا۔ اب بابر اعظم بھی کا کہنا ہے کہ ہم دفاعی پوزیشن لے کر نہیں کھیلے صورتحال کے مطابق کھیلے۔ پہلا سیشن اچھا کھیلے دو سافٹ آؤٹ ہوئے جس کے بعد ہم نے فائٹ بھی کی۔
یہ کہنا درست نہیں ہےکہ دونوں ٹیموں کے درمیان مائینڈ سیٹ کا فرق تھا۔کپتان سیریز میں شکست کے باوجود کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ بابر اعظم نے کہا کہ پچز دونوں ٹیموں کے لئے ایک ہی طرح کی تھیں ۔نسیم شاہ کو کھلانے کا فیصلہ پلان کا حصہ تھا پہلی اننگز کا فائدہ ہوا ۔ہم پازیٹو مائینڈ کے ساتھ کھیلے ہم ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، یکے بعد دیگرے آؤٹ ہونے کے بعد صورتحال مختلف ہوئی انہوں نے کہا کہ حسن علی میچ ونر ہے میرا اس پر اسی طرح اعتماد ہے جیسے پہلے تھا۔ مجموعی طور پر ہم نے سیریز اچھی کھیلی کراچی میں غیر معمولی کرکٹ کھیلی۔
ایک سیریز کے بعد تبدیلیوں کی بات نہیں کرنی چاہئے سب کی ماضی میں اچھی کارکردگی رہی ہیں۔ مجھے بحیثیت کپتان سب کھلاڑیوں پر اعتماد ہے اور رہے گا ۔ہوم ایڈوانٹیج کے مطابق پچز تیار کی جاتی ہیں ہم نے سیریز میں اچھی کرکٹ کھیلی ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم بلاشبہ آسٹریلیا کے خلاف وہ کرکٹ نہیں کھیل سکی جو اسے ہوم گراونڈ پر کھیلنی چاہیے تھی۔ بیٹنگ لائن کی کارکردگی سے ایسا لگ رہا تھا کہ سب اپنے لئے کھیل کر آوٹ ہوگئے۔پنڈی اور کراچی ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹنگ لائن اچھا کھیلی لیکن لاہور میں بیٹرز نے مایوس کیا۔کراچی ٹیسٹ میں بابر اعظم نے بہت اچھی اننگز کھیلی رضوان کی سنچری نے پاکستان کو شکست سے بچا لیا۔
امام الحق نے سیریز میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ عبداللہ شفیق نے سیریز میں اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا۔ لیکن بولنگ لائن توقعات پوری کرنے میں ناکام رہی۔ کراچی ٹیسٹ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف عبور کرنے میں ناکام رہ کر نئی تاریخ تو رقم نہ کر سکی لیکن اس نے حوصلہ مندی کا نیا باب ضروررقم کیا۔کپتان بابر اعظم کے جرات مندانہ کریئر بیسٹ 196 اور محمد رضوان کے ناقابل شکست 104 رنز کی بدولت پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
جب پانچویں دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان نے 443 رنز بنائے تھے اور اس کے سات کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ اچھی کارکردگی پر سب نے تعریف کی لیکن آخری ٹیسٹ میں شکست نے ٹیم انتظامیہ کی آنکھیں کھول دیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگلے چار ماہ پاکستان کی کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں ہے ہوم سیزن بھی آف ہے اس لئے بابر اعظم اور ثقلین مشتاق کو اس عرصے میں ڈرائنگ بورڈ پر بیٹھ کر خامیوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ٹیسٹ فارمیٹ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ فارمیٹ ہے جس پر توجہ دینے کے لئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔