اثنا خان
ایک بادشاہ اپنے ملک کی سیر کر رہا تھا کہ اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی رعایا کا امتحان لیا جائے، اس نے یک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہوگئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھے چھپا کر بٹھا دیا، تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے رد عمل سنے اوراسے آگاہ کرے۔
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا، جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا تواس نے ہراس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے دھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا۔ اس کا رد عمل بھی اس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا۔
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کئے بغیر جو بات اس کے دل میں آئی وہ یہ تھی کہ وہاں سے گزرنے والوں کی تکلیف ہوتی ہوگی اپنے ہمدردانہ احساس کی وجہ سے وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔
ایک وزنی پتھر کو اکیلے وہاں سے ہٹانا بہت مشکل کام تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی مضبو ط لاٹھی سے زور لگاکر بڑی جدو جہد کے بعدچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔ اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے ایک چھوٹا سا گڑھا کھدا ہوا تھاجس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی اسے نظر آئی، کسان نے کھول کر دیکھا تو اس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔