کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مراسلہ کو جعلی قرار دینا غلط اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے، مریم نواز نے خط دفتر خارجہ میں ڈرافٹ ہونے کا انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان دیا ہے،سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عمران خان کی پاکستان میں امریکی مداخلت کی اسٹوری من گھڑت ہے، امریکا نے سات مارچ کو دھمکی دی تو عمران خان 31مارچ تک خاموش کیوں رہے، عمران خان اپنی چوری چھپانے کیلئے الزامات لگارہے ہیں، حکومت میں آکر عمران خان کے پیچھے نہیں پڑیں گے اچھی گورننس کریں گے۔ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مریم نواز نے خط دفتر خارجہ میں ڈرافٹ ہونے کا انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان دیا ہے، میں سختی سے اس الزام کی تردید کرتا ہوں، مریم نواز کے پاس شواہد ہیں تو پیش کریں، مریم نواز نے دفتر خارجہ پر بیجا الزام لگایا ہے، انہیں دفتر خارجہ کے آفیسرز کے پروفیشنلزم کا اندازہ ہی نہیں ہے، قومی جماعت کی ذمہ دار خاتون کی اتنی غیرذمہ دارانہ گفتگو افسوسناک ہے، مریم فرماتی ہیں اسد مجید کو مراسلہ کے فوری بعد برسلز تعینات کردیا گیا، مریم چیک کریں امریکا میں نئے سفیر کی تعیناتی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا، ڈاکٹر مسعود خان کی تقرری میں تاخیر ہورہی تھی، انڈین لابی نے ان کی تقرری رکوانے کی پوری کوشش کی، اسد مجید گریڈ 22کے افسر ہیں انہیں باہر ہی تعینات ہونا تھا، انہیں امریکا کے بعد یورپی یونین کے اہم مرکز برسلز میں تعینات کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سفارت کار کا کام صحیح رپورٹنگ کرنا اور تعلقات کو فروغ دینا ہوتا ہے، اسد مجید نے ٹوئٹر پر ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنا کردار کررہے تھے، او آئی سی کانفرنس کے موقع پر امریکی انڈر سیکرٹری سے ملاقات میں ڈونلڈ لو کا ذکر کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا، میں نے عذرا ضیاء سے کہا تھا کیا اس قسم کی گفتگو مناسب ہے اور کیا یہ سفارتی آداب کے مطابق ہے، اس گفتگو کے دوران دیگر افسران بھی کمرے بھی موجود میں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کب اس خط کا ذکر کرنا چاہتے ہیں یہ ان کا اختیار ہے، یہ معاملہ علم میں آنے کے بعد وزیراعظم اور دوسرے ذمہ داران کو آگاہ کردیا تھا، میری تجویز تھی کہ اس مراسلہ پر فی الفور امریکی حکومت کو سخت ترین مراسلہ (ڈیمارچ) بھیجا جاناچاہئے، باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ اس وقت او آئی سی کا انتہائی اہم اجلاس ہونا ہے، مراسلہ فوراً سامنے لے آتے ہیں تو او آئی سی کا اجلاس متاثر ہوسکتا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ مناسب وقت پر اس مراسلہ کی بات کی جائے گی، وزیراعظم نے جو وقت مناسب سمجھا اس مراسلہ کا ذکر کردیا،مراسلہ کو جعلی قرار دینا غلط اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے، یہ مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی رکھا گیا ، قومی سلامتی کمیٹی کی ہدایت پر اسلام آباد اور واشنگٹن میں اس پر سخت ترین مراسلہ (ڈیمارچ) بھیجا گیا، قومی سلامتی کمیٹی نے یہ معاملہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر مندرجات شیئر کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، اسپیکر نے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں سب کو بلایا لیکن اپوزیشن قیادت نہیں آئی، اپوزیشن پارلیمان کی کمیٹی کی میٹنگ میں آکر سوالات کرتی تو ان کی تسلی ہوجاتی۔اس موقع پر شاہزیب خانزادہ نے ایک سوال کرنا چاہاتو شاہ محمود قریشی نے انہیں ٹوک دیا، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آپ سوال کرسکتے ہیں لیکن کسی جماعت کے ترجمان نہیں بن سکتے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے جواباً کہا کہ شاہ صاحب مجھے بتایئے میرے ایک سوال میں کہاں کسی کی ترجمانی ہے، تحریک انصاف کے ارکان کا یہی مسئلہ ہے کہ جہاں مشکل سوال کیا جائے تو فوراً الزام تراشی شروع کردیتے ہیں، میں زیادہ سخت سوال کروں گا تو آپ لوگ بائیکاٹ کرجائیں گے، شاہ محمود قریشی کا اس پر کہنا تھا کہ میں نے آپ کے ہر سوال کا جواب دیا ہے، میرا آپ کا بڑا پرانا احترام کا رشتہ ہے جو برقرار رہے گا، شاہزیب آپ ایک پائے کے صحافی ہیں میں آپ کا احترام کرتا ہوں، اس بحث کے بعد شاہزیب خانزادہ نے سابق وزیرخارجہ سے سوال کیا کہ اگر اوآئی سی اجلاس کی وجہ سے ڈیمارچ نہیں کیا گیا تو کم ازکم قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تو بلایا جاسکتا تھا، اتنی خطرناک بات تھی کہ پاکستان کو دھمکی دی گئی تھی اس کے باوجود اجلاس کیوں نہیں بلایا، وزیراعظم نے پہلے 27مارچ کو جلسے میں اس کا ذکر کیا قومی سلامتی کا اجلاس بعد میں بلایا ، کیوں؟ شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے اجلاس بلایا او ربعد میں ذکر کیا، اس اجلاس کی ٹائمنگ وہ کیا بہتر سمجھتے ہیں یہ ان کا اختیار ہے، وزیراعظم نے یقیناً سوچ بچار اور مشاورت کے بعد مناسب وقت پر اجلاس بلایا۔ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سفیر کے مراسلہ کے تانے بانے تحریک عدم اعتماد سے جڑتے ہیں، ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر سے سات مارچ کو تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا جبکہ اس وقت تک عدم اعتماد پیش بھی نہیں ہوئی تھی، ڈونلڈ لو کو کیسے معلوم ہوا کہ تحریک عدم اعتماد داخل ہوگئی ہے حالانکہ عد م اعتماد داخل ہی نہیں ہوئی تھی، یہ بھی ممکن تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ تبدیل کرلی تھی، ڈونلڈ لو کی گفتگو میں ذکر ہے کہ تحریک عدم اعتماد آرہی ہے، اس گفتگو کو امریکی سفارتکاروں کی اپوزیشن اور پی ٹی آئی کے ان ارکان سے ملاقاتوں کے تناظر میں دیکھا جائے جنہوں نے بعد میں اپنی وفاداریاں تبدیل کی تو منظرنامہ واضح ہوجاتا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ روس ، چین اور ازبکستان نے پاکستان میں غیرملکی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ترکی کے وزیرخارجہ نے مجھے فون کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔