اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) تمام غیر آئینی حربے ناکام ہوگئے، پاکستانی قوم کو ایک ہفتے تک ہیجانی کیفیت میں رکھنے کے بعد وزیراعظم عمران خان برطرف ہوگئے۔
عمران خان نے سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت ختم ہونے کے آخری منٹ میں اسپیکر اسد قیصر کی قربانی لے لی، اسد قیصر نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کرکے مستعفی ہوگئے اور ایوان ایاز صادق کے سپرد کرکے چلے گئے جسکے بعد ایاز صادق نے اپنی صدارت میں اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی۔
انہوں نے رات گئے شہباز شریف کی قرارداد پر ووٹنگ کروائی، ووٹنگ کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں174؍ووٹ آئے، جسکے بعد عمران خان وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہوگئے، قراداد کامیاب ہونے کے بعد اپوزیشن ارکان نے شدید نعرے بازی کی اور ایوان میں زبردست جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت تحریک انصاف کے ارکان ایوان چلے گئے،عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے جانے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔
قبل ازیں اسپیکر اسد قیصر دن بھر عمران خان کے احکامات کی تکمیل کیلئے اجلاس بار بار ملتوی کرتے رہے اور وزراء سے لمبی لمبی تقاریر کروا کر سپریم کورٹ کے حکم کی عدم تعمیل کی کوشش کی، شاہ محمود کی تقریر کے دوران ارکان جمائیاں لیتے رہے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی صبح تک ملتوی کردی، اسی روز قومی اسمبلی نئے قائد ایوان کا انتخاب کریگی۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے اجلاس کے دوران اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر ایاز صادق اجلاس کی صدارت شروع کی۔
اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں آکر اراکین سے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایاز صادق سے کہا کہ وہ پینل آف چیئرمین کے رکن کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھیں۔
ایاز صادق نے پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت شروع کی اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کردیا اور اراکین کو طریقہ کار سے آگاہ کرتےگھنٹیاں بجادی۔ حکومتی اراکین نے اسمبلی سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایوان کی نشستیں خالی کردیں۔
ایاز صادق نے ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ 12 بجے اجلاس ملتوی کرنا ہے کیونکہ نیا دن شروع ہوگا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ووٹنگ شروع کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنایا کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے ووٹنگ کا عمل شروع کیا اور 12 بج کر دو منٹ تک کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔ دو منٹ کے وقفے کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو تلاوت کلام پاک اور نعت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر نے قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے بعد اراکین کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ ایاز صادق نے اعلان کیا کہ 174 اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان حکومتی بینچوں پر بیٹھ گئے اور وزیراعظم شہباز شریف، گو نیازی گو کے نعرے لگائے، شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگائے،تحریک عدم اعتمادپرووٹنگ کےدوران منحرف ارکان بھی ایوان میں موجود تھے۔
تحریک عدم کامیاب ہونے کی خبر سنتے ہی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی کے مہمانوں کی گیلری میں پہنچ گئے اور مبارکباد وصول کی۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کردیا۔
جیو نیوز کے مطابق اپوزیشن ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ اسد قیصر کا کہنا ہے کہ عمران خان سے 30 سالہ تعلق ہے، جو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی بیوفائی کرسکتا ہوں ،اسکی کوئی بھی سزا بھگتنے کو تیار ہوں، جبکہ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے ووٹنگ کرانے سے انکار کیا نہ کسی سے ایسی کوئی بات کی ،قومی اسمبلی میں اپوزیشن یاد دلاتی رہی ووٹنگ نہ کرانے پر توہین عدالت لگے گی۔
اس کے باوجود اجلاس میں بار بار التواء،لمبی لمبی تقاریر کا سہارا لے کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی گئی ،سپریم کورٹ کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کا اہم اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا۔
کچھ دیر بعد ساڑھے 12 بجے تک کا وقفہ لیا گیا لیکن پھر اجلاس ڈھائی بجے شروع ہوا لیکن اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود بھی ووٹنگ نہ کرائی گئی اور اس دوران ارکان اسمبلی لمبی لمبی تقریریں کرتے رہے جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے شام 5 بجے نماز عصر کیلئے اجلاس میں دوبارہ وقفہ لیا، نماز کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اسے دوبارہ ساڑھے 7 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں حکومت کے 51ارکان موجود تھے تاہم وزیراعظم نہیں تھے۔
اسپیکر کا اجلاس کی صدارت شروع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق من و عن کارروائی کروں گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اب تک مختلف ارکان اسمبلی کی جانب سے تقاریر کی گئیں تاہم عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مرحلہ شروع نہ ہو سکا۔
شہباز شریف نے اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا آج ایوان پارلیمان آئینی و قانونی طریقے سے ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جا رہا ہے۔ اگر یہ لوگ سازش کی بات کرینگے تو بات بہت دور تک جائے گی اور ہم ان کو ننگا کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے دھمکی آمیز مراسلے پر بات شروع کی تو اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور کہا کہ وزیر خارجہ پھر اس مراسلے سے متعلق بات کر رہے ہیں، آج کے ایجنڈے میں صرف تحریک عدم اعتماد شامل ہے۔ اپوزیشن ارکان شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اپنی نشستوں پرکھڑے ہو گئے اور انہوں نے اسپیکر سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اپوزیشن کے شور شرابے کے بعد حکومتی بینچز سے بھی نعرے بازی شروع ہو گئی اور اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا۔ ساڑھے تین گھنٹے کے وقفےکے بعد اجلاس دوبارہ شرو ع ہوا اور شاہ محمود قریشی نے اپنا خطاب شروع کیا تو اپوزیشن ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے نعرے لگائے اور عدالتی حکم کے مطابق ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر اسپیکر نے آصف زرداری کو یقین دہانی کرائی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کروں گا۔ قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، مولانا اسعد محمود اور اختر مینگل سمیت 176 اراکین نے شرکت کی۔
ذرائع اپوزیشن کے مطابق افطاری کے بعد اسپیکر نے کہا کہ توہین عدالت لگے یا نا اہل قرار دیا جاؤں، نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوں، مجھے جو بھی سزا ملے تیار ہوں مگر عمران سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔
قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے عہدے کیلئے کاغذات نامزدگی (آج) اتوار کو طلب کرلیے گئے۔ ذرائع کے مطابق کاغذات نامزدگی (آج) اتوار کو دن دو بجے تک سیکرٹری قومی اسمبلی آفس میں جمع ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق نئے قائد ایوان کا انتخاب پیر کو ہو گا۔