• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب میں تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا ؟

پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت کے خاتمے کے ساتھ ملک بھر کے سیاسی ماحول میں بڑی تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت میں حیران کن حد تک اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پنجاب میں بزدار حکومت کو پی ٹی آئی حکومت کے زوال کی بڑی وجہ بتایا گیا چونکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے پنجاب میں یہ احساس ہی نہ ہو سکا تھا کہ پی ٹی آئی کس جماعت کی حکومت ہے، چونکہ حکومتی جماعت کی سیاست کا گڑھ ایوانِ وزیراعلیٰ، گورنر ہاؤس اور اسپیکر آفس ہوتا ہے۔ سردار عثمان بزدار کے حقیقی پی ٹی آئی فیس نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی ورکرز اور رہنماؤں کو اُن کے دورِ حکمرانی کے تمام عرصہ کے دوران شدید دشواریوں کا سامنا رہا۔ 

گورنر ہائوس بھی اُس طرح کا سیاسی مرکز نہیں رہا جیسا کہ ایک سیاسی پارٹی کا ہوتا ہے۔ گورنر سرور نے فلاحی کام بہت کیے، صاف پانی کی دستیابی کے حوالے سے اہم کردار ضرور ادا کیا تھا لیکن وہ کوئی سیاسی ماحول نہ بنا سکے۔ حکومت کے آخری دنوں میں پی ٹی آئی کے نظریاتی ورکرز اور سیاسی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کی تعیناتی کو بہت سراہا۔ اکثریت سابق وزیراعظم عمران خان سے شکایت کرتے نظر آئے کہ عمر سرفراز چیمہ کو پہلے دن سے ہی گورنر پنجاب تعینات کیا جاتا تو شاید حالات یکسر مختلف ہوتے اور اگر عثمان بزدار کی جگہ چودھری سرور یا  عبدالعلیم خان وزیراعلیٰ ہوتے تو اس وقت سیاسی نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ عمر سرفراز چیمہ پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن ہیں جنہوں نے جدوجہد کے دوران قیدوبند کی تکلیفیں بھی برداشت کی ہیں۔ 

عمر سرفراز چیمہ نے گورنر بنتے ہی گورنر ہائوس کے دروازے تمام پی ٹی آئی ورکرز کیلئے کھول دیے۔ گورنر ہائوس میں داخلے کیلئے تمام وی آئی پی چیک لسٹ ختم کر دی گئی۔ پی ٹی آئی کی سادگی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے دیسی مرغ، مٹن سمیت تمام پُرتکلف کھانوں کے مینو کو بند کروا کر سادگی کے طور پر دال سبزی شروع کروا دی گئی اور عمر سرفراز چیمہ خود صبح کو گورنر ہائوس آتے اور رات کو اپنے گھر سونے کیلئے چلے جاتے۔ 

عمر سرفراز چیمہ کے بارے میں کہا گیا کہ چند دنوں کیلئے ہی سہی، پنجاب میں عمران خان کے حقیقی سپاہی کو گورنر لگایا گیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پھر سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یوں لگتا ہے کہ اگر جلد انتخابات ہو گئے تو پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی اور عمر سرفراز چیمہ کو دوبارہ گورنر ہائوس تعینات کیا جائے گا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کسی صورت ہار نہیں ماننی ہے۔ پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کا اعلان کر چکی ہے۔ 

ایک بار پھر پی ٹی آئی میں پوٹینشل صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ 16اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہے جس کے نتائج بہت اہم ہیں۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنی کامیابی کیلئے پُرامید ہیں۔ بعض گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات، جن میں افراتفری مزید بڑھتی نظر آ رہی ہے، میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دوست لوگ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی مدد کر دیں تاکہ حالات کو نارمل کرنے کیلئے بیلنس کیا جا سکے۔ اِس لیے ہو سکتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت کا منتخب ہو جائے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پنجاب کا جو بھی فیصلہ ہونا یہ آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا۔ 

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اب چاہئے کہ وہ اب نئے انتخابات کی تیاری شروع کر دے اور اس بار پارٹی ٹکٹیں بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی ورکرز کو ہی تقسیم کی جائیں چونکہ پی ٹی آئی کا پنجاب میں ووٹ بینک اتنا زیادہ ہے کہ اگر اِن سب ووٹرز کو پی ٹی آئی اگر باہر لے آئی تو آئندہ انتخابات میں جیت پی ٹی آئی کی ہو سکتی ہے۔ چونکہ عمران خان کے موجودہ بیانیے کو نہ صرف مقبولیت مل رہی، ہمدردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیوٹرل ووٹرز نے بھی عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو مشکوک سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن جلد ہو گئے تو نیوٹرل ووٹر پی ٹی آئی ووٹر میں تبدیل ہونے کا قوی امکان ہے، اگر ایسا ہو گیا تو کپتان پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں سامنے آئے گا۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان آرام سے نہیں بیٹھے گا اور یہ عوام کو باہر نکالنے کی پوری کوشش کرے گا۔ عمران خان کے مقابلے میں 11جماعتیں ہیں جو اس وقت حکومت میں اتحادی ہیں لیکن آئندہ انتخابات میں وہ کیا بیانیہ لے کر عوام میں جائیں گی۔ ن لیگ، پی پی پی سمیت حکومتی اتحاد کو بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس طرح مشترکہ انتخاب پی ٹی آئی کے خلاف لڑیں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلے عمران خان حکومت میں تھا تو 11جماعتی اتحاد اپنا کام کر گیا لیکن یہ 11جماعتی اتحاد پاکستان کی سیاست میں چلنا مشکل ہے۔ عمران خان کو اپنے ڈائی ہارڈ رہنمائوں کو نہیں بھولنا چاہئے جن میں عمر سرفراز چیمہ، ڈاکٹر شاہد صدیقی، محمد مدنی، امین زکی، حافظ فرحت، مظہر ساہی سمیت دیگر ایسے لوگ ہیں جن کو اہمیت دینا ہو گی۔ خیر پی ٹی آئی کو بلدیاتی انتخابات کیلئے فوری تنظیم سازی کو مکمل کرنا ہوگا اور بلدیاتی انتخابات کیلئے کوشش کریں کہ حقیقی پی ٹی آئی ورکرز کو ترجیحی بنیادوں پر موقع دیں۔ 

سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حالات میں عمران خان کو چاہئے کہ جلسے جلوسوں کے ساتھ ناراض اراکین ورکرز کو بھی راضی کریں۔پنجاب کی گورنر شپ کیلئے پی ٹی آئی کو عمر سرفرار چیمہ کی شکل میں بہتر امیدوار مل چکا ہے اور خیال ہے کہ آئندہ پی ٹی آئی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ ہی ہوں گے جو کہ پارٹی کے وسیع تر مفادات میں ایک بہتر فیصلہ ہو گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید