مرکز میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پورے ملک میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا ہے ، تحریک عدم اعتماد کا 7مارچ 2022ء سے شروع ہونے والا سنسنی خیز ڈرامہ9اپریل کو رات بارہ بجے تک ایک اعصاب شکن انتظار کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا ،اب بہت سے باتیں سامنے آچکی ہیں ،کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے پس پردہ کیا کچھ ہوتا رہا اور کامیاب بنانے کے لئے کیا کاوشیں کرنا پڑیں ، بہرحال متحدہ اپوزیشن ایک کامیاب حکمت عملی اختیار کرکے عمران خان کے اقتدار کو قبل ازوقت ختم کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اس وقت ملک میں متحدہ جماعتوں کی حکومت ہے ،جس کی سربراہی شہباز شریف کررہے ہیں ،گویا اب سیاست کا منظرنامہ کچھ ایسا ہے کہ ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں ہیں اور دوسری طرف اکیلی تحریک انصاف ہے ، ایک لحاظ سے عمران خان کے لئے یہ ایک بڑا اچھا موقع ہے کہ وہ ایک بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنے آپ کو منوائیں اور آنے والے انتخابات کے لئے تحریک انصاف کو تیار کریں ،پنجاب میں بھی تبدیلی کی امید کی جارہی ہے اور لگتا یہی ہے کہ متحدہ اپوزیشن یہاں بھی ترین اور علیم خان گروپ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہے گی۔
اس طرح سیاست کا پورا چہرہ تبدیل ہوجائے گا ،تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں لے لیں گی ،جہاں تک جنوبی پنجاب کا تعلق ہے ،تو یہاں بھی بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں ،تحریک انصاف کی حکومت میں جنوبی پنجاب کو خاصی نمائندگی حاصل تھی ، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وفاقی وزراء سید فخر امام ، خسرو بختیار ، وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک عامرڈوگر ، عون عباس بپی ،وزیر مملکت زرتاج گل ،صوبائی وزراء ڈاکٹر اختر ملک ،حسین جہانیاں گردیزی ،ہاشم جواں بخت وکئی پارلیمانی سیکرٹریز شامل تھے، جنوبی پنجاب سے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو خاصی بڑی کامیابی ملی تھی۔
خاص طور پر ملتان میں قومی اسمبلی کی تمام چھ نشستوں پر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب رہے تھے، اگرچہ بعد میں ملتان کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی، جتنا اس کا حق تھا، اسی وجہ سے یہاں کے بعض ایم این اے جن میں ملک احمد حسن ڈیہڑ اور رانا قاسم نون شامل ہیں ،پارٹی سے خفارہے ،گروپ بندی کی وجہ سے بھی جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کو بڑا نقصان پہنچا ،شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین گروپ ایک دوسرے کے مخالف رہے ، جب جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا ،تو پارٹی میں شاہ محمود قریشی نے اپنا سکہ جما لیا اور اس علاقے کے بیشتر فیصلے شاہ محمود قریشی کرتے رہے اور اس زمانے میں بھی یہ بات زبان زدعام رہی کہ جہانگیر ترین کو عمران خان سے دور کرنے میں شاہ محمود قریشی کا بڑا ہاتھ ہے ،جہانگیر ترین گروپ تو بعد میں تشکیل پایا۔
وہ بھی اس ردعمل کا نتیجہ ہے اور اس گروپ کی وجہ سے عمران خان کو کتنا بڑا سیاسی نقصان ہوا، اس حوالے سے سارے حقائق سامنے آچکے ہیں ،اب نئی حکومت کے آنے سے اس خطہ کی سیاسی بساط بھی نئے سرے سے بچھنے کی امید ہے، اس سیاسی بساط میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کی کوشش کریں گی ،اگرچہ مرکز کی سطح پر تو سارے معاملات طے پاچکے ہیں اور پنجاب کی سطح پر بھی یہ بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی کو کتنی نمائندگی ملے گی ،پنجاب کی گورنر شپ پر مخدوم سید احمد محمود کا نام لیا جارہا ہے ،جو پہلے بھی پنجاب کے گورنر رہے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شاید ڈیرہ غازی خان کے کھوسہ خاندان کو بھی اس منصب کے لئے زیر غور لایاجائے، یاد رہے کہ کھوسہ خاندان کچھ عرصہ پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوا ہے ، اگرچہ جنوبی پنجاب اور خاص طور پر ملتان میں مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی اسمبلیوں میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ملتان سے سید یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے علی حیدرگیلانی ہی صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔
ان کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ انہیں صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائےگا، ادھر پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا چئیرمین بنانے کا ارادہ رکھتی ہے ،اگر ایسا ہوجاتا ہے ،تو پہلی بار سینٹ چئیرمین کا عہدہ بھی ملتان کے حصہ میں آجائے گا ،لگتا یہی ہے کہ اسمبلی رکنیت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مسلم لیگی رہنماؤں کو معاونین خصوصی بنا کر حکومت میں شامل کیا جائے گا، تاکہ وہ ترقیاتی منصوبوں میں اپنا کردار ادا کریں اور آنے والے الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جاسکے۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بھی سر پر کھڑے ہیں ، جب یہ بلدیاتی ادارے توڑے گئے تھے، تو ان میں مسلم لیگ ن کے عہدے داروں کی اکثریت تھی اور اکثر عہدے ان کے ہی پاس تھے، اب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار اس بار بھی زیادہ تعداد میں کامیابی حاصل کریں گے، مسلم لیگ ن اس لئے بھی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس کی وجہ سے عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے ،تاہم سب سے بڑا چیلنج جو مرکزی اور صوبائی حکومت کو درپیش ہوگا ،وہ مہنگائی، بے روزگاری اور امن وامان کا ہے۔
اگر پنجاب میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنتے ہیں ،تو ان دونوں باپ بیٹے کے لئے یہ بہت بڑ اچیلنج ہوگا کہ وہ عوام کو ریلیف دیں، جو بظاہر بہت مشکل نظر آرہا ہے، کیونکہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور عوام کو اقتصادی شعبہ میں رعایت دینے کے لئے شاید کوئی بڑا معرکہ سرکرنا پڑے ۔پی ٹی آئی کی یہ کوشش تھی کہ فوری الیکشن ہوجائیں، تاکہ مخلوط حکومت کو انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ ملے، اس لئے عمران خان سے اسمبلی توڑی تھی، جسے بعدازاں سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔
عمران خان کی آخری وقت تک یہ کوشش رہی ،نئے انتخابات کے لئے اپوزیشن کو قائل کرلیں، مگر ایسا نہ ہوسکا ،اب ساری گیم کل کی اپوزیشن اور آج کی اقتدار پارٹی کے پاس ہے، تاہم تحریک انصاف ایک بڑی اپوزیشن کے طور پر سامنے آسکتی ہے، عمران خان نے جو غیر ملکی سازش کا بیانیہ دیا ہے، اگرچہ وہ کسی بڑے فورم پر ثابت نہیں ہوا، اس لئے تحریک انصاف کی ساری مہم اس بنیاد پر چلے گی اور اگر ایک موثر انتخابی مہم چلانے میں تحریک انصاف کامیاب رہی ،تو آنے والے انتخاب میں جو زیادہ دور نظر نہیں آتے ، اسے خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے، البتہ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کتنی دیر عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں۔