• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی حکومت کا کڑا امتحان شروع ہو چکا ہے اسے ایک جانب اتحاد کو برقرار رکھنا ہے تو دوسری جانب اتحادیوں سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہیں گڈ گورننس کا قیام کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ بھی کرنا ہے پی پی پی پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے انہیں ایم کیو ایم سے کئے گئے وعدے بھی نبھانے ہیں دوسری سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں بھی کرنی ہیں۔ 

ایک جانب پی پی پی ۔پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کا جشن منا رہی ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکن احتجاجاََ َسڑکوں پر آ گئے ہیں اس ضمن میں سندھ بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔پی ٹی آئی کے تحت عدم اعتماد کی تحریک اور عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے خلاف راشد منہاس روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس احتجاج میں پارٹی ترانے بجائے گئے۔مظاہرے کے سبب اطراف میں ٹریفک جام ہوگیا۔ مظاہرے میں شہر بھر سے کارکنان، شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 

مظاہرے میں گورنر سندھ عمران اسماعیل پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ ، بلال غفار ،سعید آفریدی ،ارسلان تاج سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر کارکنان نے اپوزیشن کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرے سے خطاب میں فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ایم کیوایم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کرکرپشن کامنصوبہ بنایا ہے۔ متحدہ کو گزشتہ انتخابات میں کچھ نشستیں ملی تھیں اب یہ بھی نہیں بچیں گی۔تین چوہوں کے ساتھ مل کرایم کیوایم نے قوم سے غداری کی ہے۔

پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں نے کہا کہ اتنے عرصے تک ایم کیو ایم پی ٹی آئی کے ساتھ کام کرتی رہی ، یہ ایزی لوڈ کی سیاست عوام دیکھ رہے ہیں۔ ساری اپوزیشن جماعتیں ایک طرف اور پی ٹی آئی تن تنہا کھڑی ہوئی ہے ، عوام نے سندھ ہائوس میں ضمیر فروشی بھی دیکھی۔ پوری قوم عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس متحدہ اپوزیشن کی امپورٹیڈ حکومت کو آئندہ انتخابات میں شکست دیں گے عمران خان دوبارہ وزیراعظم بنیں گے۔ اس حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے معاہدہ کے بعد شہر بھر میں پی ایس پی نے بینرآویزاں کردیئے جس پر لکھا تھا کہ مہاجرقوم برائے فروخت نہیں ہے ۔ 

پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے کہاہے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے عوام کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے، قوم کو اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف حکمرانوں سے سڑکیں، اسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹی، پارک مانگنے کی بجائے ان کو بنانے اور چلانے کے اختیارات اور وسائل کا مطالبہ کرنا ہوگا، تب جاکر پاکستان ترقی کرے گا۔ جبکہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے مرکزی صدر سید زین شاہ نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں جھگڑا جمہوریت اور اصولوں کے لیے نہیں بلکہ اقتدار پر قبضے کے لیے تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی امور چلانے کے لیے گٹھ جوڑ کے ذریعے جس پارٹی کو اقتدار کی کمان دی جاتی ہے، ایک حدکے بعد اس کا ٹکراؤ ریاستی اداروں کےساتھ ہوجاتا ہے۔

جس کی وجہ سے ملک میں نہ جمہوری سیاست مضبوط ہورہی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ طاقتور بن سکی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ 1940 کی قرارداد کی بنیاد پر ایک نیا آئینی معاہدہ ہونا چاہیئے۔پی ٹی آئی کے ارکان نے قومی اسمبلی سے استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو گا کیونکہ ضمنی انتخاب میں وہ ان نشستوں سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی اور یہ نشستیں حکومت اور ان کے اتحادیوں کے حصے میں آئیں گی ادھر پی ٹی آئی سندھ اسمبلی کے ارکان نے بھی مستعفی ہونے کا عندیہ دیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ سندھ پنجاب اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے استعفے پنجاب میں وزیر اعلی کے انتخاب کے نتائج کو دیکھ کر دیئے جائینگے یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی آرام سے نہیں بیٹھے گی اور وہ اس تمام عرصے میں کارکنوں کو متحرک رکھنے اور " امپورٹڈ" حکومت کا بیانیہ زندہ رکھے گی اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے کارکنوں کے درمیان تصادم نہ ہو جائے،حیدرآباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاج کے دوران ایم کیو ایم کا پرچم نذر آتش کیا جس کی ڈاکٹر فاروق ستار نے شدید مذمت کی۔ 

تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں 155 ارکان ہیں، جن میں 122 جنرل، 22 خواتین اور 5 اقلیتی نشستوں پر منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے پارٹی میں گروپ بندی کا خدشہ ہے اس وقت پارٹی کے 22 ارکان منحرف ہیں۔ جو استعفےنہیں دینگے۔ آئین،قانون اور قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط کے مطابق پارٹی کسی رکن کو استعفے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ ماضی میں جن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا ہے ان کو بعد میں اپنی غلطی کا ادارک ہوا۔ ضمنی انتخاب کے بعد نئی حکومت اور زیادہ مستحکم ہوگی اور اپنی مرضی کی قانون سازی کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانے کا پابند ہے۔ 

تحریک انصاف کے جنرل نشستوں پر خیبرپختونخواہ کی 51 میں سے 36 ارکان ہیں جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں بھرپور انتخابی ماحول پیدا ہوگا۔ دوسرے نمبر پنجاب ، تیسرے نمبر پر سندھ اور پھر بلوچستان اور اسلام آباد ہے۔ ضمنی انتخاب کا انحصار بھی استعفوں کی منظوری پر ہے۔ اسپیکر چاہے تو لٹکا کے رکھے اس کی واضح مثال 2014تحریک انصاف کے استعفے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید