اسکول کے زمانے میں جب بھی شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری پڑھنے کا اتفاق ہوا تو زیادہ تر نو جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پایا۔ علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو خواب غفلت سے جگا تے ہوئے نظر آئے۔ آہستہ آہستہ جب ذہنی پختگی آئی تو اس وقت یہ راز کُھلا کہ نو جوان ہی کسی قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں، اگر قسمت سے یہ اچھے ہوں تو پورا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے زوال کے اس دور میں کہیں امید کی کوئی کرن دیکھتےتھے تو وہ نوجوان تھے۔
مسلمانوں کو ان کے ماضی سے روشناس کروانے اور انہیں شاندار عہد رفتہ کی یاد دہانی کرانے، توانائی سے بھر پور لیکن اپنے مستقبل سے مایوس اور صلاحیتوں سے لاعلم نوجوانوں کو نشان منزل دکھانے کے لئے علامہ اقبال کا کلام ایک مثال کہلایا۔ انہوں نے نوجوانوں کو خواب دکھلا کر قوم وملت کی تعمیر کا خواب دیکھا تھا۔ ایسا نوجوان جو پر اعتماد ہو ، جس میں قوت ارادی کا جذبہ ہو ، جو ہر طوفان کا مقابلہ کرسکے، جو خراب حالات کا شکار ہونے کے بجائے حالات کو اپنے طریقے سے ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تقسیم ہند و پاک سے پہلے بھی ہمارے قائدین نے نوجوان نسل کو اپنی جدوجہد آزادی میں شامل کر کیا، آخر کار ان کے جذبوں کا اخلاص رنگ لایا اور ایک آزاد ملک معرضِ وجود میں آیا۔ آج پھر ملک کو اُسی جذبے کی ضرورت ہے، کیونکہ جذبہ ایمانی کے تحت ہمارا ملک تو بن گیا ، مگر اس کو سنبھالنے والے مخلص لوگ نہ رہے۔ ہمارا وطن اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت سے مالا مال ہونے کے باوجود تنزلی کا شکار ہے۔ ہم تن آسان ہوگئے یعنی ہر چیز پلیٹ میں رکھ کر مل جائے، جب ایسے لوگ ناکام ہوتے ہیں تو وہ قسمت کا گلہ کرتے ہیں جبکہ کامیابی قسمت سے نہیں بلکہ محنت سے ملتی ہے۔
جس طرح زمین میں بیج بویا جاتا ہے اورپھر اس کی آبیاری کی جاتی ہے تب ہی خوش نمابیل بوٹے دھرتی کی رونق بڑھاتے ہیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز صرف اور صرف "محنت" میں مضمر ہے۔ انسان چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوا تو وجہ قسمت نہیں محنت تھی، سائنس داں قسم قسم کی ایجادات کرنے میں کامیاب ہوئے تو وجہ قسمت نہیں محنت تھی۔کامیاب لوگوں کا ایک پلان ہوتا ہے ، وہ اسی پہ دن رات محنت کرتے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ محنتی لوگ من و سلویٰ کے انتظار میں نہیں بیٹھے رہتےنہ ہی قسمت کا حال بتانے والے طوطوں سے فال نکلواتے اور نہ نجومیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوشش اور محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے جس سے ہر خزانے کا تالہ کھولا جا سکتا ہے اور اقوام عالم میں اپنے ملک کا وقار بلند کیا جا سکتا ہے۔
یہ باتیں گوش گزار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان اگر آج محنت کو اپنا شعار بنا لیں اور ملک کو مستحکم بنانے کی طرف توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی نہ کر سکے۔ اس بات کو ذہن سے نکال دیں کہ کامیابی قسمت اور مقدر سے ملتی ہے بلکہ کامیابی تو صرف کوشش، محنت اور لگن سے ہی ممکن ہے۔ آج بھی ہمارے بہت سے نوجوان باصلاحیت ہیں جو ان نامساعد حالات کے باوجود خود کو دنیا بھر میں منوا رہے ہیں۔ تعلیم ٹیکنالوجی اور دیگر نئی تخلیقات میں اپنی اہلیت ثابت کر رہے ہیں ۔لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اکثریت تو ایسے نوجوانوں کی ہے، جن کی سستی اور کاہلی نے ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیا ہے اور وہ تن آسان ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ازخود یہ بات طے کر لی ہے کہ وہ دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتے ، وہ ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ زندگی حرکت اور حرارت سے عبارت ہے ۔ یہ آرام وآسائش کا نہیں بلکہ سخت کوشی اور سخت جانی کا نام ہے ۔ نوجوان نسل کی سہل طلبی اور آرام پسندی کرب کا باعث ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ:
بے عمل دل ہوتوجذبات سے کیا ہوتا ہے
زمین بنجر ہوتو برسات سے کیا ہوتا ہے
ہے عمل لازم تکمیل تمنا کے لئے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے
نوجوانو! تمہارے اندر صلاحیتوں کی ایک نئی دنیا آباد ہے۔ ضرورت صرف اسے تلاش کرنے کی ہے، اگرچا ہو تو اپنی اہمیت زمین ، آسمان اور فضائوں میں ہر جگہ ثابت کر سکتے ہیں۔ اپنے حالات بدلنے کے لئے کسی دوسرے پر نہیں بلکہ اپنے زور بازو پر بھروسہ کرو، یاد رکھو جو دوسروں پر تکیہ کرتے ہیں وہ منہ کی کھاتے ہیں، اس لئے خود کو پہچانو۔
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کی مثال دی تھی، جن کا کام صرف پرواز کرنا ہے یعنی بلندی سے مزید بلندی پر جانا اور آگے سے آگے بڑھنا ہے۔ آپ کی سوچ جتنی تعمیری اور بامقصد، با شعور اور مسائل کی سمجھ بوجھ رکھنے والی ہوگی اتنے ہی ملک و قوم کے مستقبل کی ضامن ہوں گے۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایسے نوجوان قوم کے نمائندہ اور پسندیدہ ہوتے ہیں جو دیانت ، شرافت اور پاکیزگی کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ جراءت اور بہادری سے حالات کی سنگینیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال کے اس شاہین کو بیدار ہوجائیں اور اپنے میں شاہین والی صفات پیدا کریں ، پھرہی انشاء اللّہ بات بنے گی بقول علامہ اقبال .
نہیں ہے نو امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ ضروری ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے اس معاشرے کی نئی نسل کی اصلاح کی جائے۔ نوجوان نسل کی تربیت سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ان ہی نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے نوجوان بھی ابھر کر سامنے آئیں گے جو مستقبل میں ملک کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔