• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کا شین زو - 13 خلائی مشن کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچا اور اس کے ساتھ ہی چین کے اُن مقاصد کا ایک اور بڑا سنگ میل عبور ہوا جو چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ نے اپنے خلائی ادارے کو سونپے ہیں۔ اس سے سوویت یونین کے اُن کارناموں کی یاد بھی تازہ ہوگئی جو اُس نے 1950 اور 1960 کے عشروں میں انجام دیے تھے۔ پہلے سپوتنک نامی مصنوعی سیارے کو خلا میں بھیجنا اور پھر یوری گگارین کو دنیا کا پہلا خلاباز بنانا ایسے کارنامے تھے جنہوں نے امریکا اور دیگر یورپی طاقتوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔

چین کا شین زو - 13 خلائی مشن

اب چین سوویت یونین کے نقش قدم پر چلتا معلوم ہوتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ کچھ عرصے میں امریکا کو خلائی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دے۔شین زو SHEN ZOU - 13 نامی خلائی جہاز تین چینی خلابازوں کو لے کر خلا میں گیا تھا ،جہاں اپنا چھ مہینے کا قیام پورا کرکے یہ لوگ 16 اپریل کو زمین پر بخیروخوبی واپس پہنچ گئے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت اپنی خلائی ٹیکنالوجی کو صرف آزما رہا ہے اور اس کا اصل کام کچھ عرصے بعد شروع ہوگا یعنی کہا جاسکتا ہے کہ چین کے خلائی مقاصد کے لیے لیے " ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے "۔چھ مہینے کا خلا میں قیام چین کی خلائی ایجنسی جسے CMSA کہا جاتا ہے اب چینی خلائی قیام گاہ کے تعمیری مراحل کا آغاز کررہی ہے۔

اسی مشن کے ساتھ چین کی خاتون وانگ یا پنگ وہ پہلی چینی عورت بن گئیں جس نے خلا میں چہل قدمی بھی کی, ان تین چینی خلابازوں نے اس مشن کے دوران دو مرتبہ خلائی چہل قدمی کی اور کوئی بیس مختلف سائنسی تجربات بھی کیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دو تعلیمی خطاب بھی براہ راست نشر, کیے۔ گو کہ چین مجموعی طور پر اب بھی ترقی پذیر ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خلائی سائنس میں اس کی کامیابیاں بہت جلد اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کریں گی جس سے دیگر ترقی پزیر ممالک کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور چین سے بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملے گی۔ 

چین کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس نے اپنے خلائی پروگرام کو امریکا اور دیگر ممالک کی طرح بند نہیں رکھا ہے بل کہ وہ دیگر ترقی پذیر ممالک کو دعوت بھی دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ خلائی تحقیق اور دیگر مقاصد کی تکمیل میں چین کے ساتھ شامل ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنے زمینی مسائل موجود ہیں تو چین کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ خلا میں اپنا سر کھپائے۔ 

غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ چین خلائی بالادستی حاصل کرکے دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا چاہتا ہے جس کو امریکا سمیت کوئی بھی ملک آنکھیں نہ دکھا سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا اور روس ہی ایسے ممالک ہیں جو بے دھڑک دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ چین اس صورت حال کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

وہ ٹیکنالوجی میں امریکا کے مدمقابل آکر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا چاہتا ہے

اگر چین دیگر ترقی پذیر ممالک کو اپنے خلائی مقاصد میں شامل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے تو یہ اس کے لیے اہم کارنامہ ہوگا۔ مگر سوال یہی ہے کہ دیگر ممالک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ چین کے ساتھ خلائی منصوبوں میں کوئی خاطرخواہ حصہ ڈال سکیں۔ شاید اسی کے لیے چین اُن کے مالی وسائل کے بجائے دیگر وسائل پر اکتفا کرے گا۔

جب چین کے صحراء گوبی شین زو 13 مشن کی واپسی کی کیپ سول قریب پہنچی تو اس کا پیرا شوٹ کھل گیا تاکہ اس میں موجود تین خلا باز جنہیں چینی ٹائی کوناٹ ( AIKONAUT ) کہتے ہیں کسی بھی قسم کے جھٹکے یا صدمے سے محفوظ رہیں۔ اس واپسی کے سفر میں تقریباً نو گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ تمام خلا باز بہترین صحت کے حامل رہے اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، گو کہ وہ تقریباً چارسو کلومیٹر کی بلندی سے نیچے آئے تھے۔

یاد رہے یہ چین کا دوسرا خلائی مشن تھا جس میں انسانوں کو بھیجا گیا تھا۔ اس سفر کا آغاز سولہ اکتوبر 2021 کو ہوا تھا اور ٹھیک چھ مہینے بعد 16 اپریل 2022 کو یہ لوگ زمین پر واپس پہنچ گئے۔ اس سے قبل 2021 میں چین کا پہلا انسانی خلائی مشن جون سے ستمبر تک تین مہینے جاری رہا تھا۔ اس دوسرے خلائی مشن کی خاص بات یہ یہ تھی اس میں دو دفعہ چین کے طالب علم براہ راست خلابازوں کے لیکچر سن سکے اور اُن سے سوال جواب بھی ہوئے۔اب چین کے اگلے خلائی مقاصد کیا ہیں۔ 

چین کے حکام کا کہنا ہے کہ اپنے آزمائشی دور سے گزرنے کے بعد اب ایک چینی خلائی قیام گاہ جسے اسپیس اسٹیشن کہا جاتا ہے مدار میں ہی تعمیر کے مراحل سے گزرے گا یعنی اب شین زو 14 اور شین زو 15 کے مشن پر بھیجے جائیں گے اور چینی قیام گاہ کی تعمیر 2022 میں ہی مکمل کرلیں گے۔اسی طرح کُل چھ مزید مشن منصوبہ بندی کے مراحل سے گزریں گے۔ اُن میں اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ خلائی قیام گاہ کی مدار میں تعمیر کے دوران جو سازوسامان استعمال ہوگا اسے خلائی جہاز کے اندر سے ہی بیٹھ کر جوڑا جائے یعنی خلابازوں کو بار بار خود جہاز سے نکل کر مدار میں پرزے نہ جوڑنے پڑیں۔

اب چین ایک مال بردار خلائی جہاز تیان ژو - 4 بھیجے گا جو شین زو - 14 کے مشن میں موجود انسانوں کو رسد پہنچائے گا ۔ خلا میں ایک مرکزی موڈیول یا حصہ ہوگا جس کے دیگر حصے جڑتے چلے جائیں گے اور اس کے لیے روبورٹ کے بازو اور ہاتھ استعمال کیے جائیں گے۔ مکمل ہونے کے بعد چینی خلائی قیام گاہ سو ٹن وزنی ہوگی جس میں بیک وقت چھ خلا باز رہ سکیں گے۔ پھر ان کے ساتھ ایک خلائی دوربین بھی روانہ کی جائے گی جو اسی مدار میں گردش کرتے ہوئے مطالعاتی اعداد وشمار فراہم کرتی رہے گی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امریکا نے چین پر پابندی لگا رکھی ہے وہ بین الاقوامی خلائی قیام گاہ جو پہلے ہی مدار میں موجود ہے استعمال نہیں کرسکتا۔

اس پابندی کے بعد چین نے گزشتہ دس سال میں اپنی ٹیکنالوجی کو اتنا بہتر کرلیا ہے کہ وہ امریکا کے مدِمقابل آنے والا ہے۔ اب چین کا منصوبہ ہے کہ وہ 2030 تک ایک بڑی خلائی طاقت بن جائے اور اس کے لیے چین نے مریخ کے لیے بھی خلائی مشن بھیجے اور پھر دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کی پچھلی طرف جہاز اتارا۔ چین نے اپنا پہلا خلا باز 2003 میں بھیجا تھا جس کے دس سال بعد 2013 میں روبوٹ کو چاند پر اتارا اور پچھلے سال 2021 میں ایک اور روبوٹ مریخ پر اترا۔ اور اب چین چاند پر بھی خلاباز اتارنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

چین کے حالیہ کیپ سول نے دو سو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے واپسی کا سفر کیا تھا یعنی پانچ سیکنڈ میں ایک کلو میٹر ۔ جب امریکا نے چین پر بین الاقوامی خلائی پروگرام میں شرکت پر پابندی لگائی تو جواز یہ پیش کیا تھا کہ چینی خلائی پروگرام کو چینی کمیونسٹ پارٹی کا فوجی حصہ یعنی پیپلز لبریشن آرمی چلاتی ہے۔ چین دنیا کا تیسرا ملک تھا جس نے اپنے شہری خلا میں بھیجے اس سے قبل سوویت یونین اور امریکا ایسا کرچکے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ اس کا خلائی پروگرام چین کی قومی انتظامیہ چلاتی ہے۔ 

چین نے سب س پہلے 1950 کے عشرے میں ہی اپنا پلاسٹک مزائل کا پروگرام شروع کردیا تھا جو امریکا اور روس دونوں کے مقابلے کے لیے تیار کیا جارہا تھا اس کا, منطقی نتیجہ 2003 میں نکلا جب پہلا چینی خلا باز خلا میں پہنچایا گیا۔اب جہاں ایک طرف چین ترقی پذیر ملک کو خلائی پروگرام میں شامل کرنے کی بات کررتا ہے دوسری طرف بلیٹ اور روڈ کے منصوبوں کے تحت دنیا کے درجنوں ممالک میں مختلف منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بات جو غایب نظر آتی ہے وہ یہ کہ عوامی منصوبوں پر کام جیسے نئے اور اچھے تعلیمی ادارے بنانا یا صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر کام کرنا چین کے مقاصد میں نظر نہیں آتا۔ 

مثلاً اگر صرف پاکستان اور سری لنکا کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو دونوں ملکوں نے چین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے لیکن دونوں شدید معاشی مشکلات کا شکار رہے ہیں اور پاکستان جیسے چین کے قریبی دوست کو مالی امداد کے لیے آئی ایم ایف اور سعودی عرب وغیرہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ پھر تمام دعووں کے باوجود چین اور پاکستان کی باہمی تجارت چین کے زیادہ فائدے میں ہے۔ 

اب بھی پاکستان کی برآمدات زیادہ تر امریکا, یورپ اور عرب ممالک میں جاتی ہے اور پاکستان کی بیرونی تجارت کا دس فیصد حصہ بھی چین کے ساتھ نہیں ہے۔ ان حالات میں چین کے دعووں پر یقین کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ چین بہت جلد دنیا کی بڑی خلائی طاقت بن جائے لیکن غالباً اسے اپنے دوست ملکوں کے معاشی حالا ت بہتر کرنے پر توجہ بھی دینی چاہیے۔ جن کے پاس روزگار کے مواقع نہیں وہ ممالک چین کے ساتھ خلا میں جاکر کیا کریں گے۔