بلوچستان مین بلدیاتی انتخابات 29 مئی کو ہورہے ہیں ، شیڈول کے مطابق 21 اپریل تک متعلقہ ریٹرننگ افسران کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرائے جاسکیں گے،22 اپریل کو نامزد امیدواروں کی فہرستیں جاری،23 سے 25 اپریل تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال،26 سے 28 اپریل تک ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کیخلاف اعتراضات دائر جبکہ29 اپریل سے 6 مئی تک ریٹرننگ افسران اپیلوں پر فیصلے کریں گے اور 29 مئی کو کوئٹہ اور لسبیلہ کے علاوہ پورے بلوچستان کے تمام اضلاع میں پولنگ ہوگی۔
قبل ازیں بلوچستان حکومت نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے مزید وقت مانگ لیا تھا جبکہ بلوچستان اسمبلی نے بھی بلدیاتی انتخابات 6 ماہ کے لئے موخر کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی جبکہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے انتخابات کچھ عرصے کے لئے ملتوی کرانے کے لئے چیف الیکشن کمشنر سے اسلام آباد میں بھی ملاقات کی تھی۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات 2018 سے مسلسل التوا کا شکار ہیں جبکہ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ بلوچستان 2013 میں پہلا صوبہ تھا جہاں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے ، گزشتہ ہفتہ الیکشن کمیشن نے کوئٹہ اور لسبیلہ کے علاوہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں بلدیاتی الیکشن 29 مئی کو کرانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ کوئٹہ اور لسبیلہ میں حلقہ جات بڑھنے سے دوبارہ حلقہ بندی کے بعد ان اضلاع میں الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد بلوچستان کابینہ کے اجلاس کے بعد 4 اپریل کو صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں صوبائی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی تھی کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات ایک ہی فیز میں 15 جولائی یا اس کے بعد کرائے جائیں لہذا الیکشن کمیشن 29 مئی 2022 کو انتخابات کے شیڈول کو ری شیڈول کرئے۔
جبکہ ساتھ ہی بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزرا میر اسد بلوچ اور سردار عبدالرحمٰن کھیتران کی مشترکہ قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی جس میں بلدیاتی انتخابات 6 ماہ کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ، صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کا موقف تھا کہ ملک اور صوبے کے حالات کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات چھ ماہ کیلے موخر کئے جائیں ایک جانب صوبے میں مئی میں آئندہ سال کے بجٹ کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو دوسری جانب صوبے کے سرد علاقوں سے گرم علاقوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے لوٹنے کا بھی موسم ہوتا ہے جبکہ گندم کی کٹائی کا سلسلہ بھی اس دوران شروع ہوجاتا ہے۔
تاہم بلوچستان ہائی کورٹ نے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیلئے دائر آئینی درخواستوں کو خارج کردیا،جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا موقف سامنے آیا کہ بلدیاتی اداروں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں انتخابات کے شیڈول کے مطابق انعقاد کے حوالے سے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کریگی حکومت بلوچستان صوبے میں شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے پوری طرح تیار ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو خوش اسلوبی سے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد کا ٹاسک دے دیا گیا ہے انتخابات کے پرامن اور شفاف انعقاد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجٹ کی تیاری اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر صوبائی حکومت کی خواہش تھی کہ انتخابات کا انعقاد کچھ عرصہ کے لئے موخر کیا جائے۔
جیسے کہ اس سے پہلے اس بات کا بھی ذکر ہوچکا ہے کہ 2013 میں بلوچستان پہلا صوبہ تھا جس نے بلدیاتی انتخابات کرائے تھے لیکن صوبے کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ فنڈز کے حوالے سے اپنے پورئے دور میں شکایات کرتے رہے جس کے لئے ڈسٹرکٹ چیئرمینز کا اتحاد بھی قائم کیا گیا تھا دوسری جانب اب جبکہ بوچستان میں مئی میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں تو کوئٹہ میں سیاسی جماعتوں اور سابق بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے کہ کوئٹہ کی آبادی ملک میں ہونے والے آخری مردم شماری کے مطابق کافی بڑھ چکی ہے لیکن حلقوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا ان اعتراضات کے بعد کوئٹہ میں بلدیاتی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا ہے اور کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں حلقوں کی تعداد 58 سے بڑھاکر 84 کردی گئی ہے۔
جبکہ کوئٹہ ڈسٹرکٹ کونسل جو کوئٹہ کے نواحی علاقوں پر مشتمل ہے میں یونین کونسلز کی تعداد بھی بڑھادی گئی ہے لیکن اب کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں حلقہ بندیوں پر بھی اعتراضات کی باز گشت سنائی دئے رہی ہے جس کا اظہار بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے بھی کیا اور حلقہ بندیوں کو درست کرنے کا مطالبہ بھی کیا ، ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی بلدیاتی اداروں کی اہمیت سے اگرچہ انکار ممکن نہیں لیکن یہاں یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان اداروں کو صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ضرور رہا ہے، بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کا ماضی میں یہ تحفظات رہے ہیں کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو فنڈز اس لئے نہیں دیتی ہیں کیونکہ صوبائی وزرا اور حکومتی ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز خود استعمال کرکے اپنا ووٹ بینک مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد پر انتخابات میں جاکر کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
جبکہ دوسری جانب ہر صوبائی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ ان کے پاس فنڈز بہت کم ہوتے ہیں فنڈز کے حوالے سے ماضی میں ایک جانب بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت سے تو دوسری جانب صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومتوں سے گلے رہے ہیں اب ان میں کس کے گلے شکوئے زیادہ درست اور وزن رکھتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن حقیقیت یہ ہے بلوچستان میں ترقی اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی اداروں کا انتخاب اور انہیں فنڈز کی فراہمی بھی ایک اہم ایشو ہے۔ لہٰذا بلدیاتی اداروں کو پہلے سے زیادہ فنڈز دینے سے مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔