کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ دفتر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو سائفر سے متعلق فوری طور پر بتادیا تھا، سابق وزیر خارجہ کی ہدایت پر دفتر خارجہ نے فوری طور پر ڈیمارش جاری نہیں کیا.
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی بوکھلائے ہوئے ہیں، عمران خان قومی سلامتی اور خارجہ معاملات کواپنی سیاست کی بھینٹ چڑھارہے ہیں مراسلہ میں امریکی ڈپلومیٹ کی گفتگو بھی شامل ہے اسے پبلک کرنے سے پہلے امریکا سے اجازت لینا ہوگی،سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ سفیر دوسرے ممالک میں جو سنتے دیکھتے ہیں وہ سفارتی مراسلوں میں حکومت کو بھیج دیتے ہیں۔
وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھرنے کہا کہ اگر سازش سازش کھیلنا ہے تو اگلی دو دہائیوں تک کھیل سکتے ہیں، ملک کے مسائل کو حل کرنا ہے تو کام کرنا پڑے گا،اسٹیج پر کھڑے ہو کر بات کرنا آسان ہوتا ہے کام کرنے میں محنت کرنا پڑتی ہے.
پاکستانی سفارتکار ملک کے مفادات اور ان کے تحفظ کا طریقہ جانتے ہیں، ٹیلی گرام کی آخری تین لائنوں میں اسسمنٹ اور سفارشات کا ذکر تھا،مراسلے کی آخری تین سطریں پاکستانی سفیر کی سفارشات پر مبنی ہیں،ٹیلی گرام میں پاکستانی سفیر نے امریکا کو ڈی مارش دینے کی تجویز دی،سفیر نے کہا امریکی حکام سے پوچھیں ہمیں جو کہا گیا ہے کیا یہ ذاتی پوزیشن ہے یا امریکی حکومت کی رائے ہے۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ سفارتی مراسلہ سات مارچ کو وصول ہوگیا تھا اگر اس میں دی گئی سفارشات سنجیدہ تھیں تو اسی وقت ڈیمارش جاری کیوں نہیں کیا.
سفیر نے جس ملاقات کا ذکر کیا وہ وفود کی سطح کی نہیں تھی،یہ ایک لنچ آن میٹنگ تھی ایسی میٹنگوں میں ہم بھی بہت سخت زبان استعمال کرتے ہیں، اگر میں کہتی ہوں کہ جب تک نریندر مودی حکومت ہے پاکستان کے انڈیا سے تعلقات نہیں بہتر ہوسکتے، اس طرح میں ٹیکنیکل طور پر مداخلت کررہی ہوں لیکن اس طرح میں اپنا نکتہ نظر پیش کررہی ہوں۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ سائفر میں ایسے پیغام ہوتے ہیں جن کا ہم کھلے خط میں ذکر نہیں کرنا چاہتے، اگر آپ کو کوئی بہت بڑی سازش نظر آتی ہے تو صرف ڈیمارش نہیں دیں گے، کسی ملک میں رجیم چینج کو ڈپلومیٹک چینلز کے ذریعہ نہیں آگے پہنچایا جاتا، دفتر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو سائفر سے متعلق فوری طور پر بتادیا تھا، سابق وزیرخارجہ کی ہدایت پر دفتر خارجہ نے فوری طور پر ڈیمارش جاری نہیں کیا۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھاکہ سفیر نے وضاحت کے ساتھ سائفر کے مندرجات سے قومی سلامتی کمیٹی کو آگاہ کیا،سفیر نے کہا کہ سائفر میں جو زبان استعمال کی گئی وہ غیرمعمولی تھی، سائفر میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی بنیاد پر سفیر نے ڈی مارش کی تجویز دی تھی، اس معاملہ سے غیرمناسب طریقے سے نمٹنے کی وجہ سے ہماری وزارت خارجہ پر دباؤ آیا۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ اگر کوئی سائفر سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہاہے تو وزارت خارجہ اس گند میں نہیں کود سکتا،پچھلی حکومت سائفر کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے منظرعام پر لائی، میرا موقف تھا سفیر کو بلا کر ان سے پوچھا جائے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی بوکھلائے ہوئے ہیں، عمران خان قومی سلامتی اور خارجہ معاملات کوا پنی سیاست کی بھینٹ چڑھارہے ہیں، قومی سلامتی کمیٹی کے پچھلے اجلاس کے فیصلوں کو عمران خان نے ٹوئسٹ کرنے کی کوشش کی جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو وضاحت کرنا پڑی، قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں سفارتی مراسلہ لکھنے والے سفیر کو بلا کر سنا گیا، ملک کی دو پریمیئر سیکیورٹی ایجنسیوں نے واضح کیا ہے کہ غیرملکی سازش کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے پی ٹی آئی حکومت کیخلاف کوئی بیرونی سازش نہیں کی گئی، اس کے باوجود عمران خان اپنے بیانیہ کو طول دینا چاہتے ہیں تو انہیں روک نہیں سکتے، عمران خان پاکستان کے کلیدی مفادات اور ڈپلومیسی کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کیبل میں سنگین سازش کا ذکر ہوتا تو سفیر کی اسسمنٹ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیوں ہوتا، سفیر کی اسسمنٹ کو پیش نظر رکھا گیا کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ کوئی سازش نہیں ہے،اسد مجید نے بھی اپنے مراسلہ میں کسی سازش کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا آگے بڑھارہے ہیں، پاکستان کو معیشت کیلئے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کی ضرورت ہے،امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے ہی پیچیدہ ہوچکے ہیں.
عمران خان اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ امریکا میں پاکستان کا کوئی نام لینے والا نہ بچے،عمران خان چاہتے ہیں کہ امریکا میں ہماری مارکیٹ ختم ہوجائے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں ہمارے طلباء کو بھی ویزے نہ ملیں،عمران خان کا مقصد کیا ہے کیا وہ پاکستان کو کیوبا یا نارتھ کوریا بنانا چاہتے ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سفارتی مراسلہ سات مارچ کو لکھا گیا جو آٹھ مارچ کو موصول ہوگیا، حکومت نے تیس مارچ تک اس کیبل پر کوئی ایکشن نہیں لیا، مراسلہ میں کسی سنگین سازش کا ذکر تھا تو ان بائیس دنوں میں امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں نہیں کیا گیا.
یہ 30مارچ تک سوتے رہے تحریک عدم اعتماد میں شکست نظر آئی تو جیب سے کاغذ نکال کر لہرادیا،ڈونلڈ لو نے 7مارچ کو پاکستانی سفیر کو دھمکی دی تھی تو 16مارچ کو انہی ڈونلڈ لو کو پاکستانی سفارتخانے کی تقریب میں کی نوٹ اسپیکر کے طور پر کیوں مدعوکیا گیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ سفارتی مراسلہ پبلک کرنے سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مراسلہ میں امریکی ڈپلومیٹ کی گفتگو بھی شامل ہے اسے پبلک کرنے سے پہلے امریکا سے اجازت لینا ہوگی، عمران خان پاکستان کی سفارتکاری کو تباہ کررہے ہیں، اب پاکستان کا کوئی سفیر کھل کر کوئی بات نہیں لکھے گا کہ کہیں بات کا بتنگڑ نہ بن جائے، دوسرے ملکوں کے سفارتکار بھی ہمارے سفیروں سے صرف موسم کی بات کریں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ سفیر دوسرے ممالک میں جو سنتے دیکھتے ہیں وہ سفارتی مراسلوں میں حکومت کو بھیج دیتے ہیں، امریکا اور دوسرے ملکوں کی طرف سے ناشائستہ اور دھمکی آمیز زبان میں پیغام دیئے جاتے رہتے ہیں۔