راولپنڈی(اپنے رپورٹرسے)لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے سانحہ مری کے حوالے سے دائر رٹ پٹیشنز میں آئندہ پیشی پر سی ٹی او راولپنڈی کو طلب کرلیا اور سماعت جمعرات تک ملتوی کی۔سرکاری وکلاء کے دلائل جاری تھے۔پیر کو محکمہ ہائی وے مکینکل ونگ کے ایکسیئین نے پیش ہوکر ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ نومبر تا اپریل مری میں سڑکوں پر نمک چھڑکائو پر75لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں جس میں43لاکھ روپے کا نمک بھی شامل ہے۔سی او ضلع کونسل کامران خان نے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا کہ مری میں 2019کے بعد سے 583بلڈنگ پلان منظوری کیلئے جمع کرائے گئےجن میں سےچودہ غیر قانونی بلڈنگز شامل ہیں۔214پلان منظور ہوئے،190اوپن پلاٹ ہیں۔ نامنظور میں سے38کمرشل اور141رہائشی منصوبے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن میں اب تک 52عمارتوں کے خلاف کارروائی کی گئی،15کے خلاف ایف آئی آر ز کرائی گئیں۔19افراد کو گرفتار کیا گیا۔11عمارستیں سیل کی گئیں۔3کو مکمل منہدم جبکہ29کو جزوی منہدم کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ چار مختلف جگہوں پر کھدائی کرنے والے افراد کے خلاف چارایف آئی آرز درج کرکے17کو گرفتار کیا گیا۔ضلعی انتظامیہ کے لیگل ایڈوائزر سید محمد شاہ نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ سانحہ مری سے قبل منصوبہ بندی کیلئے اجلاس ہوئے۔عدالت عالیہ کے استفسار پر بتایا گیا کہ سی پی او راولپنڈی کی رپورٹ کے مطابق مری میں215ہوٹلوں میں24ہزار2سو افراد کے ٹہرنے کی گنجائش ہےجبکہ پارکنگ کی سہولت 42سو گاڑیوں کیلئے موجود ہے۔اس کے علاوہ انفرادی طور پر غیر رجسٹرڈ رہائشی سہولتیں ہیںجو لوگوں نے گھروں میں بنارکھی ہیں۔ان کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔جس کا عدالت عالیہ نے نوٹس لیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ رجسٹریشن کی زمہ داری کس کی ہے۔عدالت عالیہ کو بتایا گیا کہ کم از کم دس رہائشی کمروں کی سہولت والی عمارت کو ہوٹل کی کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ادارے براہ راست ڈپٹی کمشنر کے ماتحت نہیں تھے۔سانحہ کے بعد ادارے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کئے گئے ہیں۔فرحت مجیدچوہدری اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عالیہ کو افسران کے تبادلوں کے حوالے سے آگاہ کیا کہ اسٹنٹ کمشنر کی آسامی کی تعیناتی مدت سے مشروط نہیں ہے۔باقی کمشنر، ڈپٹی کمشنر،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر وغیرہ پر انیتا ایوب کیس کے معیار کا اطلاق ہوتا ہے۔ایکسین میکنیکل ہائی وے دلشاد نے عدالت عالیہ کو آگاہ کیا کہ نمک چھڑکائو کیلئے کام آوٹ سورس کیا جاتا ہے۔332کلو میٹر لمبی سڑکیں ہیں جن پر ہائی وے نمک کا چھڑکائو کرتا ہے۔عدالت عالیہ نے سرکاری وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ مری سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تفصیلات سے بھی آگاہ کریں۔عدالت عالیہ کے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ مری میں تعمیرات کیلئے مختلف محکموں کے بارہ کے لگ بھگ این او سی درکار ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم محکمہ ماحولیات،جنگلات اور ہائی وے کے شمار کئے جاتے ہیں۔عدالت عالیہ نے مری میں حادثات کا گزشتہ دس برسوں کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی ۔جس پر ڈبل ون ڈبل ٹو کے نمائندے نے آگاہ کیا کہ دو سال کا ڈیٹا دستیاب ہوا ہے۔عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ کیا مری کو راجہ بازار بنانا ہےجس سے کچھ پوچھا جائے وہ سینکڑوں صفحات کی ایک نئی رپورٹ بنا لاتا ہے۔بریفنگ سنیں تو لگتا ہے کہ سوئٹزر لینڈ بن جائے گا لیکن عملی طور پر حالت پہلے سے بھی خراب ہورہی ہے۔ دریں اثناء سانحہ مری کے بعد دائر رٹ پٹیشنز کی سماعت کے دوران مری کے ایک ہوٹل کے تذکرے پر ایم او پی مری کی طرف سے اے سی اور ڈی سی کے احکامات کے بارے لاعلمی پر عدالت عالیہ نے حیرت کا اظہار کیا۔دوران سماعت غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی کے ایشو پر جب جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے استفسار کیا کہ وہ جو ایک ہوٹل(رمادا)کے خلاف کارروائی کا حکم تھا اس کا کیا بنا؟۔اسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے لکھا تھا کہ منہدم کیا جائے جس پر عدالت میں موجود ایم او پی نے ایسی کسی تحریر سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہوٹل کو قانون کے مطابق نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ان سے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔جس پر عدالت عالیہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چلیں اس کو پھر دیکھیں گے۔