اسلام آباد (خبر نگار) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب کا احتساب بلا تفریق نہیں رہا ،سیاسی رہنمائوں کیخلاف اس کو استعمال کیا گیا ، نیب کے کتنے کیسز ہیں جنہیں اس وجہ سے عدالتوں نے ختم کیا کہ ان میں جرم نہیں بنتا تھا ، ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیاستدانوں نے کچھ نہیں سیکھا ، اس ملک کے محب وطن لوگوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ، جس دن سیاستدان تاریخ سے کچھ سیکھ لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ،منتخب نمائندے قابل احترام ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی نارروال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں بریت کی درخواست مسترد کرنے کے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت کی تو نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال کی نارروال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں بریت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب داخل کرا دیا ہے، فرد جرم عائد اور تین گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہو گئے ہیں ، بریت کی درخواست مسترد کی جائے، چیف جسٹس نے کہا ہے نیب بتائے کہ عبوری یا ضمنی ریفرنس نیب آرڈیننس کی کون سی دفعہ کے تحت دائر کیا جاتا ہے؟ ، ریفرنس کی کارروائی کس مرحلے پر ہے؟ ، آپ عبوری چالان نیب آرڈیننس کی کس شق کے تحت دائر کرتے ہیں؟ نیب نے بتایاکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے کہ ضمنی ریفرنس دائر ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس ریفرنس میں احسن اقبال پر الزام کیا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ احسن اقبال پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے، چیف جسٹس نے نیب سے کہا کہ آپ نے مسعود چشتی والے کیس میں ہمارا فیصلہ پڑھا ہے؟ آپ نے دو چیزیں بتانی ہیں ، عبوری یا ضمنی ریفرنس کس سیکشن کے تحت دائر کرتے ہیں؟ ، یہ ریفرنس کیسے بنتا ہے؟ آپ ان دو سوالوں کا جواب دیں ، اگر جواب نہیں دے سکے تو بریت درخواست منظور ہو جائے گی، اس موقع پر احسن اقبال روسڑم پر آ گئے اور کہاکہ ہم چور نہیں ہیں ، دیانت داری کے ساتھ ملک کی خدمت کی ہے ، یہ دیکھیں کہ ریفرنس شروع کیسے ہوا؟ چھ ارب کے پراجیکٹ ہیں ، یہ ہماری کردار کشی کر رہے ہیں،بعد ازاں عدالت نے احسن اقبال کی نیب ریفرنس سے بریت کی درخواست کی سماعت 11 مئی تک ملتوی کردی۔