• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید آئی ہے سو کر گزاریں نہ ’’خطرناک‘‘ کھیلوں سے خوشیاں دو چند کریں

احسن اقبال

عید کی آمد آمد ہے یہ خوشیوں بھرا تہوار ، روزوں کا انعام ہے۔ اس کو منانے میں سب سے زیادہ بچے اور نوجوان آگے آگے ہو تے ہیں۔ ماہِ رمضان میں اپنی خدمات سے روز داروں کو مستفید بھی کرتے ہیں۔ مساجد میں بھی جاتے ہیں ، جہاں وہ خود نیکی سے سرشار ہوتے ہیں وہیں بہت سے لوگوں کے لیے باعث اجر و ثواب بھی بنتے ہیں۔ اور پھر ہلہ گلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

اس شب عموماََ نوجوان خوشیاں منانے کے لیے ایسے طریقے اپناتے دکھائی دیتے ہیں جو نا صرف ان کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جاتے ہیں۔ شوال کاچاند دیکھتے ہی ہوائی فائرکرنے لگتے ہیں، ہوائی فائرنگ سےخوشی منانےکے بے ڈھنگے طریقے اپناتے ہیں گے۔

منچلے نوجوان موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ون ویلنگ کرتے یا پھر ریس لگاتے دکھائی دیتے ہیں، جہاں ان کی اپنی جان خطرے میں ہوتی ہے وہیں ان کی یہ حرکت کسی دوسرے معصوم انسان کے لیے بھی خطرےکا باعث بن سکتی ہے۔ بسا اوقات ان کی خرمستیاں چاند رات کو خاندان پر عذاب بن کر ٹوٹ پڑتی ہیں کہ، جب والدین کو اطلاع ملتی ہے کہ موٹر سائیکل کے ایکسیڈنٹ میں بیٹا ہڈیاں تڑوا یا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

ایک سلجھا ہوا تہذیب یافتہ نوجوان ایسے تمام طریقوں سے کنارہ کش رہتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ خوشیوں کے جذبات مٹانے کے ان بے ڈھنگے طریقوں کی وجہ سے ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ ان خوشی کے ایام میں کوئی آتش بازی کی نذر ہو گیا تو کوئی ایکسیڈنٹ میں کسی عضو سے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

یہ بات صرف چاند رات یا یوم عید سے ہی وابستہ نہیں، بلکہ ملکی سطح پر بھی ایسا کوئی بھی دن جس کا تعلق ”منانے“ کے ساتھ ہو یہی مناظر ملک کے ہر کونے سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آپ نئے سال کے آغاز کو لے لیجیے، یوم آزادی کو لے لیجئے ، کسی مقابلے میں جیت یا ہار کے لمحات کو لے لیجئے، کو ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔

عید کا ایک دن آرام سے گزرتا ہے، دوسرے روز دوستوں کے ساتھ پھر پکنک پریا آؤٹنگ پر ہلڑ بازی کرتے نوجوان ارد گرد سے بے نیاز ہوتے ہیں پر خطرسمندر اور دریاؤں میں غوطہ زن ہوکر خشیاں مناتے ہیں، جو یہ اپنی جان کے ساتھ کھیلنا اور اسے خطرے میں ڈالنا ہے۔ والدین پھر اطلاع ملتی ہے کہ بیٹا سمندر میں نہاتے ہوئے پانی میں ڈوب گیا ہے، یوں جہاں خوشیاں رنگ جما رہی ہوتی ہیں وہاں سوگ کا سماں ہوجاتا ہے۔

ایک اور عادت جو آج کل کے نوجوانوں میں رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی ہے، وہ ہے عید کے دن سو کر گزارنا، یہ جہاں اس عظیم دن کی ناقدری کا باعث ہے وہیں ایک نوجوان کی شایان شان نہیں کہ وہ خوشیوں بھرے دن کو بوریت کا سبب سمجھے۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ عید کے دن کیا کرنا چاہیے؟ عید کا دن ہوتا ہے، ملنے ملانے کا، روٹھوں کو منانے کا، لیکن اگر وہ سو کر گزار دیں تو اس کا کیا فائدہ ؟ 

اس لیے اس روز وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جائیں، اپنے دوستوں سے ملیں، اپنے بزرگوں کو وقت دیں ، ان سے دعائیں لیں۔ ا س سے آپس کی محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ عید کا دن عید ہی طرح گزاریں۔ اس روز خواہ حالات کیسے ہی ہوں ہمیں خوش باش اور چست رہنا چاہیے، کیوں کہ اس روز خوش ہونا اللہ کا حکم ہے۔