آج کے ترقی یافتہ دور میں نوجوان نسل انگریزی بولنا، انگریزی لکھنا اپنے لئے اضافہ شان کا سبب سمجھتے ہیں، باوجود اس کے کہ اُردو ان کی قومی زبان ہے، مگر حیرت ہوتی ہے ان نوجوانوں کو دیکھ کر ۔ بے شک انگریز بہادر کے عہد میں، انگریزی کے بغیر چارہ نہ تھا مگر اب سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ذہنی غلامی اور دماغی پستی کا سبب کیا ہے؟
نوجوان، انگریزی زبان اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنی دماغی برتری اور علمی فوقیت کا رُعب جما سکیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ا نگریزی زبان کے وقار و عظمت کا طلسم اب ٹوٹ چکا ہے۔ اس کی بین الاقوامی اہمیت ہمیں تسلیم ہے لیکن جہاں تک ہماری قومی زبان اور روزمرہ کے کاروبار کا تعلق ہے۔
انگریزی کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دینا چاہئے۔ وہ زمانے گئے جب انگریزی بول کر یہ بظاہرکیا جاتا تھا کہ ہم برطانوی سامراج کے مقرب خصوصی ہیںاور ہماری بڑی قدر و منزلت ہے۔ بھلا کیا ضرورت ہے کہ انگریز ی میں خط و کتابت کی جائے، انگریزی میں دفتری کاروبار کئے جائیں۔ انگریزی میں بورڈآویزاں کیے جائیں۔
نوجوانو! تم ہی آگے بڑھو، غلامی کے نقوش مٹا دو اُٹھو ان محکومی کی نشانیوں کو فنا کردو۔ تم آزاد قوم کے فرد ہو، آخر کب تک دوسروں کی تقلید کرتے رہو گے، خود تمہارے خزانے میں تہذیب و تمدن کے انمول سکے موجود ہیں۔ دوسروں کے ناکارہ سکوں کا چلن بند کرو۔
یادرکھو! قوموں کی تعمیر میں زبان کی بڑی اہمیت ہے۔ دنیا میں صرف وہی قوم ذہنی اور دماغی حیثیت سے زندہ رہ سکتی ہے، جس کی اپنی زبان ہو۔ اُردو ہماری قومی زبان ہے صرف اردو بول کر ہی تم اپنے ذہن و دماغ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
نوجوان، اس میدان میں مثال قائم کریں اور انگریزی کے بجائے اُردو کو ذریعہ اظہار، ذریعہ بیان اور ذریعہ تفہیم بنائیں۔