• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارٹی پالیسی سے انحراف ملکی مفاد میں بھی ہوسکتا ہے، اصلاحات کریں توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے، سپریم کورٹ

اسلا آباد (خبرایجنسیاں)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک ارکان اسمبلی کی نااہلی کا حکم عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی،پارٹی پالیسی سے انحراف ملکی مفاد میں بھی ہوسکتا ہے، اصلاحات کریں توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ پیسوں سے حکومت گرانا روایت بن گئی،چند لوگوں کی خریدو فروخت سےعوام کا مستقبل دائو پر ہوتا ہے، سلسلہ بند ہونا چاہئے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاہےکہ ایک کہتا ہےآزاد عدلیہ ، دوسرا کہتا ہے آئین کے طابع عدلیہ چاہئے،جسٹس مظہر عالم نے کہاہےکہ میری نظر میں آرٹیکل 63(1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے،یہ آرٹیکل عدلیہ، فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے، آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ہوگی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی،سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عمران خان کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا، مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہوگی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نااہل ہوگا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہو جائے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے، جب تک نااہلی کا حکم عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی، یوٹیلیٹی بلز کی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کوئی ڈی سیٹ ہو اور 15 دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے، ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہو کر کوئی وزیر بھی بن جائے، ایسا ہو جانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ قانونی اصلاحات کریں، توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔بابر اعوان نے کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے، اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے جواب دیا کہ میری نظر میں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1) جی عدلیہ و فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی میعاد نہ ہونے پر تاحیات نااہلی ہوگی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟۔بابر اعوان نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے، کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں، اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کر سکے؟بابر اعوان نے جواب دیا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں، اٹھارویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کے لیے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے بنائی گئی، اٹھارویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں، کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کر سکتی ہے؟بابر اعوان نے مشرف مارشل لا توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا، عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھ سمیت سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اب بہت ہو چکا، جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں، سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے، آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے۔بابر اعوان نے کہا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے، عدلیہ صرف آئین کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اپنے فیصلوں سے قانون وضع کرتی ہے، آئین کے دیباچے کی بنیاد اسلام ہے، آپ کہتے ہیں کہ لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں، عوام انصاف ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ق)) کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل کا آغاز کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی جماعت میں شامل ہوتے وقت یہ حلف لیا جاتا ہے کہ پارٹی سربراہ کی ہر ایک بات پر عمل کیا جائے گا؟ یہ تعین کس نے کرنا ہے کہ کس شخص کا کیسا کردار ہے؟اظہر صدیق نے جواب دیا کہ آئین نے پارٹی سربراہ کو اختیار دیا ہے کہ اپنے اراکین کے کردار کا تعین کر سکے، برطانیہ میں ایک پاؤنڈ کی کرپشن پر استعفیٰ دے دیا جاتا ہے۔وکیل مسلم لیگ (ق) نے کہا کہ ہمارے ہاں عدالتیں جس کو صادق و امین نہ ہونے پر نااہل قرار دے چکیں وہ فیصلے ماننے کو تیار نہیں ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈلواتے وقت قرآن پر حلف لیے گئے تھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاآزاد رکن یہ حلف دیتا ہے کہ وہ پارٹی کے ہر فیصلے کا پابند ہوگا؟،اظہر صدیق نے جواب دیا کہ پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے آزاد رکن تمام شرائط تسلیم کرتا ہے، منحرف ارکان سے قرآن پر حلف لیا ہے کہ ووٹ ہمیں ڈالنا ہے، یہ تلخ حقائق ہیں اس میں نہیں جانا چاہتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا فورم مہیا کرتا ہے۔اظہر صدیق نے کہا کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے، کیا عدم اعتماد کی تحریک وزیر اعظم کی شکل پسند نہ ہونے پر بھی آسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی سزا منحرف رکن کی رکنیت کا خاتمہ ہے، کیا آپ منحرف رکن کی سزا میں اضافہ چاہتے ہیں؟اظہر صدیق نے جواب دیا کہ سزا میں اضافہ میرا کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کے خلاف حفاظتی دیوار ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو اسے سزا کیسے ملے گی؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ روایت بن گئی ہے کہ پیسوں سے حکومت گرائی جاتی ہے، چند لوگوں کی خرید و فروخت سے 22 کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر ہوتا ہے، اراکین کی خرید و فروخت کے ذریعے حکومت گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

اہم خبریں سے مزید