گرمی ہو یا سردی، پاکستان میں روزانہ ہزاروں جوڑے شہنائیوں کی گونج اور بینڈ باجوں کے شور میں شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں۔یہ ایک معمول کی سرگرمی ہے، جو صدیوں سے ہماری معاشرتی زندگی کے ایک اہم ترین جزو کی حیثیت سے چلی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس قسم کی سرگرمیاں کسی خبر کا عنوان نہیں بنتیں ،لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی گم نام علاقے میں بھی ہونے والی کوئی شادی لمحوں میں بریکنگ نیوز بن کر عوامی گفتگو کا موضوع بن جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں بھی کچھ ایسی ہی صُورتِ حال پیش آئی، جب کراچی سے لاپتا ہونے والی تین لڑکیاں دُعا زہرہ، نمرا کاظمی اور 25سالہ زینا دیکھتے ہی دیکھتے بریکنگ نیوز کا عنوان بن گئیں اور دس ،بارہ دنوں تک مسلسل خبروں، افواہوں اور قیاس آرائیوں کے ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائی رہیں۔
اگرچہ، الیکٹرانک میڈیا نے صرف خبروں پر اکتفا کیا، لیکن سوشل میڈیا پر یہ نمبر وَن ٹرینڈ رہا،جس میں بعض یوٹیوبرز نے تو خبریں بریک کرنے کے چکر میں جاسوسی ناولز کے مشہور کردار، شرلاک ہومز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ آخر کار دس بارہ روز کا یہ بخار اُس وقت اُترا، جب معلوم ہوا کہ کراچی کی دُعا زہرہ نے لاہور کے رہائشی ظہیر، نمرا نے ڈیرہ غازی خان کے نوجوان شاہ رُخ اور سولجر بازار کی 25 سالہ دینا نے وہاڑی کے ایک نوجوان کو اپنا جیون ساتھی بنا لیا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی اِن تمام لڑکیوں نے والدین کی مرضی کے بغیر سیکڑوں میل دُور انٹرنیٹ یا موبائل کے ذریعے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرکے برسوں پرورش کرنے والے والدین کے گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیے۔ لڑکیوں کی بازیابی اور اُن کے اعترافی بیانات نے بہت سے سوالات چھوڑے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ کہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر جا رہا ہے اور آخر ایسی نوبت کیوں آتی ہے کہ والدین جس بیٹی کی برسوں دل و جان سے پرورش کرتے ہیں، وہ ایک روز اچانک تمام خونی رشتوں کو روندتی، اپنا گھر بار چھوڑ کر، والدین اور بزرگوں کی دعائوں کے بغیر ہی کسی اجنبی نوجوان کے ساتھ چل پڑتی ہے؟ آخروہ ایسا قدم کیوں اُٹھاتی ہے کہ سات پردوں میں چُھپی، گم نام لڑکی پورے مُلک کا موضوع بن جاتی ہے اور دِل گرفتہ والدین عزّت کا جنازہ نکلنے پر اپنا سَر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔
کورٹ میرج کیا ہے؟
مظہر سجّاد ایڈووکیٹ نے، جنہیں عائلی عدالتوں کے مقدمات کا طویل تجربہ ہے،کہا کہ’’ ہمارے معاشرے میں کورٹ میریجز کا رجحان گزشتہ ایک دہائی سے تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اِس حوالے سے غلط تصوّرات بھی پائے جاتے ہیں کہ وکیل کی موجودگی میں عدالت میں نکاح پڑھایا جاتا ہے حالاں کہ عدالت کا مرحلہ تو بعد میں آتا ہے۔
والدین اور بزرگوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والا جوڑا سب سے پہلے عدالتوں کے احاطے میں بیٹھے نکاح خواں سے رجوع کرتا ہے، جو گواہوں کی موجودگی اور لڑکا، لڑکی کی شاختی کارڈ یا دیگر کاغذات سے قانونی عُمر کی تصدیق کے بعد اُن کا نکاح پڑھاتا ہے، جس میں لڑکی بطور خاص یہ اقرار کرتی ہے کہ وہ بالغ ہے اور اپنی رضا مندی سے، کسی دباؤ کے بغیر شادی کر رہی ہے۔
چوں کہ اِس طرح کے جوڑوں کو والدین کی جانب سے اغوا یا گھر سے زیورات چوری کرنے جیسے مقدمات کا ڈر ہوتا ہے، اِس لیے وہ وکیل کے ذریعے عدالت سے رجوع کرکے اپنے تحفّظ کی درخواست کرتے ہیں۔ عدالت اُن کے بیان کی اچھی طرح تسلّی کے بعد متعلقہ تھانے یا کسی فریق کو ہدایت کرتی ہے کہ جوڑے کو ہراساں نہ کیا جائے۔ بظاہر اِس پراسیس کے بعد یہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے اور جوڑا ازدواجی زندگی کا آغاز کرتا ہے،تاہم، میرے مشاہدات اور تجربات کے مطابق اس کے بعد نوبیاہتا جوڑے کی کانٹوں بَھری زندگی شروع ہوجاتی ہے۔
اِس سارے عمل میں وکلا کی اینٹری اگرچہ نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے، لیکن عدالتی تحفّظ کے باوجود جب فریقین میں مقدمہ بازی شروع ہوتی ہے، تو وہ برسوں چلتی ہے۔ یہ مقدمہ بازی لڑکی کو ’’جہیز‘‘ میں ملتی ہے۔ نوبیاہتا جوڑے نے شادی سے پہلے سہانے خواب دیکھے ہوتے ہیں، مگر عام طور پر اُن کی تعبیر بھیانک ہوتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو اُن کے والدین یا رشتے دار تسلیم نہیں کرتے اور پھر معاشی مسائل بھی اُن کے ہوش ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ وہ معاشرے، دوستوں اور خیر خواہوں سے کٹ کر اپنی ذات کے خول میں بند ہو جاتے ہیں۔ مشکلات اور مسائل پر کوئی دل جُوئی کرنے والا نہیں ہوتا۔ وہ عُمر بھر بارود کے ڈھیر پر بیٹھے رہتے ہیں کہ بعض کیسز میں قتل تک کے واقعات ہوجاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں گھر سے بھاگ کر یا والدین کی مرضی کے خلاف شادیاں کرنے والے لڑکے، لڑکیوں کی غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں اور پاکستان اِس حوالے سے دنیا میں کافی بدنام ہے۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اِس ساری کہانی میں آخری نتیجے میں لڑکی ہی گھاٹے میں رہتی ہے، جو ایک اجنبی نوجوان کی چکنی چپڑی، سحر انگیز باتوں میں آ کر تن تنہا گھر کی دہلیز پار کرکے آگ میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔ ایسی شادیاں عموماً چند سال بھی نہیں چلتیں۔ لڑکا مطلب نکلنے پر غائب ہو جاتا ہے اور لڑکی اپنا سب کچھ لُٹا کر والدین کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہے، لیکن اِس دَوران والدین پر جو گزرتی ہے، اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
کئی باپ خود کشی کرلیتے ہیں،تو مائیں بیماری کا روگ لگا کر بستر سے لگ جاتی ہیں۔ بہن، بھائی معاشرے میں منہ چُھپاتے پِھرتے ہیں یا گھر سے نکلنا بند کردیتے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، ایسی80 فی صد شادیوں کا اختتام خوش گوار نہیں ہوتا۔ اگر وہ خوش گوار زندگی گزارتے بھی ہیں، تو پچھتاوے کی آگ میں جَلتے رہتے ہیں، جس کی تپش سے اُن کے بچّے بھی محفوظ نہیں رہتے۔‘‘ مظہر سجّاد نے اِس بات کو سو فی صد درست قرار دیا کہ کورٹ میریجز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں،’’ جہاں تک اِس کی وجوہ کا تعلق ہے، تو ماہرینِ سماجیات ہی اِس پر زیادہ بہتر طور پر روشنی ڈال سکتے ہیں، لیکن میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ اِس رجحان کی بنیادی ذمّے داری مخلوط تعلیم، بے جا آزادی، موبائل فونز کا غیر ضروری استعمال، ٹک ٹاک، کمپیوٹر اور موبائل فون کمپنیز کے پُرکشش پیکجز پر عاید ہوتی ہے۔ آج کل ہر لڑکے، لڑکی کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل فون ہے، جس پر کوئی چیک نہیں۔ یہ ایک طرح کا ٹائم بم ہے، جس کی طاقت وَر لہریں کنکریٹ کی دیواروں کو چیرتی پورے گھرانے کو بہا لے جاتی ہیں۔‘‘
نکاح خواں کا کردار
لاہور کی ضلع کچہری میں ایک مختصر سے کیبن، بینچ اور میز پر مشتمل نکاح خواں کے دفتر کو دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہی وہ سیسمک پوائنٹ ہے، جہاں سے پیدا ہونے والا زلزلہ کئی گھرانوں کو زمین بوس کردیتا ہے اور اِسی جگہ پر دو افراد کا عہد و پیمان بعدازاں کئی لوگوں کی جُدائی اور نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ نکاح خواں، قاری محمّد افضل سے بات ہوئی، تو اُنھوں نے بتایا،’’ جب کوئی لڑکا اور لڑکی خود یا کسی وکیل کے ذریعے ہم سے رجوع کرتے ہیں، تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن’’میاں بیوی راضی، تو کیا کرے گا قاضی‘‘ کے مصداق ہم نکاح کروانے کی حامی بَھر لیتے ہیں۔
البتہ یہ تسلّی ضرور کرتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی شناختی کارڈ کے مطابق عاقل و بالغ ہیں، کیوں کہ کم عُمری کی شادی پر باقاعدہ سزا مقرّر ہے۔لڑکی اور لڑکے کی طرف سے دو، دو گواہوں کے دست خط بھی ہوتے ہیں، جن کا انتظام جوڑے یا پھر نکاح خواں اور وکیل کرتے ہیں۔ ہم تمام قانونی دستاویز مکمل کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کام ہے اور بعض اوقات دھمکیوں کے علاوہ مقدمات بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ لیکن جب وکیل کے ذریعے لڑکا اور لڑکی عدالت میں جاکر ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر تحفّظ کی درخواست دیتے ہیں، تو عدالتی احکامات کے بعد ہم بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔
اس کے باوجود فریقین میں جو قانونی جنگ شروع ہوتی ہے اس کام کا اختتام کبھی خوش گوار نہیں ہوتا۔‘‘ قاری صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اِس ’’خطرناک کام‘‘ کا معاوضہ کتنا لیتے ہیں، لیکن اُن کے رویّے اور طرزِ گفتگو سے لگتا تھا کہ یہ خاصا منافع بخش کام ہے۔ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ دس پندرہ سال پہلے معاشرے میں ’’کورٹ میرج‘‘ کا نام بھی کسی نے نہیں سُنا تھا۔ اب تو یہ وبا پھیل گئی ہے او روزانہ کوئی نہ کوئی پسند کی شادی کا ’’کلائنٹ‘‘ آجاتا ہے۔‘‘ ہر عدالت میں نکاح خوانوں نے اپنے اڈّے قائم کر رکھے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ کاروبار بلاشہ رسکی اور خطرناک ہے، لیکن منافع ٹھیک ٹھاک ہے۔
لڑکے، لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے
معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ ’’نکاح بچّوں کی رضا مندی سے ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے، تو معاشرہ سنگین قسم کے مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ذات برادری کا اِتنا زور ہے کہ والدین بچّوں کو مجبور کرتے ہیں کہ شادی بس اِدھر ہی کرنی ہے۔ اگر بیٹا یا بیٹی، والدین کے پوچھنے پر انکار کردیں، تو اُنہیں نافرمان نہیں کہا جائے گا کہ زندگی تو اُنہوں نے نبھانی ہے۔ اِس ضمن میں حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی شادی ہمارے لیے ایک مثال ہے۔
جب حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ کے رشتے کے لیے حضورﷺ کے ہاں تشریف لائے، اگرچہ اِس سے قبل حضرت جبرائیلؑ اِس رشتے کے بارے میں حکم لا چُکے تھے، لیکن پھر بھی حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو فوراً ہاں نہیں کی، بلکہ انشاءاللہ کہہ کر اُنہیں انتظار کرنے کو فرمایا، پھر اندر جا کر حضرت فاطمہؓ سے پوچھا ’’بیٹی !ہاں کردوں؟ اور رضا مندی کے بعد ہاں کردی۔ اگرچہ، حضور ﷺ کو علم تھا کہ کاتبِ تقدیر نے اِس رشتے کو طے کردیا ہے، لیکن پھر بھی آپﷺ اُمّت کو سبق دینا چاہتے تھے کہ نادانی میں غلط فیصلے کر کے اولاد کو ٹھنڈی آگ میں نہ دھکیلو۔‘‘
’’کھلونا بم‘‘
معروف موٹیویشنل اسپیکر اور ماہرِ سماجیات، سیّد قاسم علی شاہ کا اِس معاملے پر کہنا ہے کہ’’سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور موبائل فونز عہدِ حاضر میں ایک ایسی طاقت بن کر اُبھرے ہیں، جنہیں اگر ایٹمی قوّت رکھنے والے’’کھلونا بم‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔جاپان میں تو ایٹم بم نے تو دو شہروں میں تباہی مچائی تھی، لیکن سوشل میڈیا کے بم تو ہر گھر، بلکہ ہر چھوڑے بڑے کے ہاتھ میں ہر وقت موجود ہیں اور بدقسمتی سے لوگوں کو شعور بھی نہیں کہ یہ کتنے خطرناک ہتھیار ہیں۔
گو کہ ہر چیز کے اچھے بُرے پہلو ہوتے ہیں۔ ایٹم سے بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے، نشتر سے کسی کو زخمی، تو کسی ناسور کا آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے، تاہم، ہمارے ہاں اِس ’’ایٹمی طاقت‘‘ کا ایک بھیانک پہلو یہ ہے کہ تعلیم اور شعور کی کمی کے سبب90 فی صد صارفین اس کا مثبت استعمال نہیں کرتے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کسی اَن پڑھ کے ہاتھ میں بم دے دیں اور وہ اُسے توڑ کر چیک کرے کہ یہ کیا بَلا ہے۔
بلاشبہ، دنیا میں جب بھی کوئی سائنسی تبدیلی آتی ہے، تو معاشرتی چیلنجز بھی پیش آتے ہیں، لیکن ہم نے ان چیلنجز اور خطرات سے نپٹنے کے لیے کوئی لائحۂ عمل یا ضابطۂ اخلاق طے نہیں کیا۔ مجھے یہ بات نہایت افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ دنیا میں ہمارا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پورنوگرافی دیکھنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پب گیمز اور دوسری خطرناک ویڈیوز اور مخربِ اخلاق مواد کے خوف ناک نتائج ہر روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ آن لائن دوستیاں اور گھروں سے بھاگ کر شادیاں بھی اِسی سوشل میڈیا کا شاخسانہ ہیں۔ ہم نے نوجوانوں سے کھیل کے میدان، کتابیں اور دوسرے صحت مند مشغلے چھین کر اُن کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائلز اور ٹیب پکڑا دیے اور اس کا نتیجہ وقت سے پہلے بلوغت، شدّت پسندی اور ویڈیو گیمز کے نشے کی صُورت دیکھ رہے ہیں۔‘‘
سیّد قاسم علی شاہ نے مزید کہا کہ’’مصروف ترین والدین اور بچّوں میں کمیونی کیشن گیپ بڑھ رہا ہے۔ والدین کو علم نہیں ہوتا کہ بچّے موبائل اور نیٹ پر کیا کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اُن کا فارغ وقت کیسے اور کہاں گزرتا ہے۔ اس کمیونی کیشن گیپ یا خلاء کا فائدہ مختلف منفی قوّتیں ویڈیو گیمز، ایپس کی صُورت اُٹھاتی ہیں، جو ہمارے بچّوں کو ذہنی طور پر ہائی جیک کر کے اُنہیں غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔
پسند کی شادیاں تو آئس برگ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہیں، جو کبھی کبھار منظرِ عام پر آجاتے ہیں، ورنہ درونِ خانہ معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو رپورٹ نہیں ہوتا، اس کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا، یہ وقت ہے کہ ہمارے قائدین، بزرگ اور سماجی ماہرین اِس بڑھتے معاشرتی ناسور کا تدارک کریں۔ ہمارے نصاب میں سائبر کرائمز اور موبائل وغیرہ کے بامقصد استعمال کا ایک باب ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل موبائل اور انٹرنیٹ کی ’’ایٹمی قوّت‘‘ کو تباہی کی بجائے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں، ورنہ آگہی اور والدین کی کڑی نگرانی سے محروم اور معصوم ’’بچّے‘‘ جلتا انگارہ بھی منہ میں ڈال لیں گے۔‘‘
’’ذمّے دار کون؟‘‘
جامعہ اشرفیہ، لاہور سے وابستہ مفتی شاہد عبید کے نزدیک معاشرتی بگاڑ کی ذمّے داری، والدین، اساتذہ اور ماحول پر عاید ہوتی ہے، جس میں سے کوئی بھی اپنی ذمّے داری نہیں نبھا رہا۔ اُنہوں نے کہا’’ ہمارے پاس طلاق یافتہ جوڑوں، خلع لینے والی لڑکیوں، گھر سے بھاگ کر آنے والی بچیوں اور علیٰحدگی کے مقدمات کے متاثرہ والدین کی اِتنی بڑی تعداد دعائوں اور مشوروں کے لیے آتی ہے کہ ہم سَر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لگتا ہے، ہمارا معاشرہ بارود کے ڈھیر پر آباد ہے، جس سے نکلنے والی چنگاریاں آئے روز اخلاقی پستی کے ہوش رُبا واقعات کی صُورت ہمارے ہوش اُڑا دیتی ہیں۔
اصل میں موبائل، انٹرنیٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے دنیا کو سمیٹ کر ہمارے بند کمروں میں لاکھڑا کیا ہے، جہاں اچھی بُری معلومات سے لبریز ڈیجیٹل لہریں والے کمروں کو بھی پار کرتی ہوئیں آپ کو ہر قسم کے مواد تک رسائی دے دیتی ہیں۔ اِس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معلومات کی اِس طوفانی یلغار کو روکنے کے لیے ہمارے دینی، سیاسی قائدین، والدین، اساتذہ اور دانش وَر نوجوان نسل کی اسلامی اور اخلاقی تربیت کر کے ایک ڈھال فراہم کرتے، لیکن یہاں تو معاشرے کا ہر فرد، بالخصوص والدین اور اساتذہ اِس قدر ہوسِ زر میں مبتلا ہیں کہ اُنہیں اپنے گردوپیش اور بچّوں پر توجّہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ ہر قسم کے ڈر اور خوف سے آزاد، مخلوط تعلیم کے رسیا اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ نوجوان نسل وہ سب کچھ کر گزرتی ہے، جو آئے دن سنسنی خیز خبروں کا عنوان بن جاتی ہیں۔
اگر ہم بچّوں کی شروع ہی سے اسلامی خطوط پر پرورش کا اہتمام کریں، والدین اور اساتذہ خود نمونہ بن کر دِکھائیں، تو ہوسکتا ہے کہ دیمک زدہ معاملات سنبھل جائیں۔ ہمارے معاشرے میں دین پر عمل کرنے والے والدین اور نوجوانوں کی بھی کمی نہیں، انٹرنیٹ پر بے شمار دینی پروگرام، علمائے کرام کے لیکچرز اور اسلامی ریسرچ اسکالرز کے فکر انگیز دروس سے لاکھوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں، لیکن اس کا دائرہ نوجوانوں تک مزید پھیلانا چاہیے۔کوئی بھی لڑکی یہ نہیں چاہتی کہ وہ والدین اور بزرگوں کی دعائوں کے بغیر شادی کے لیے گھربار چھوڑ دے۔
وہ اپنی نادانی، بوائے فرینڈز کے دِکھائے گئے خوابوں اور وقتی جذباتی رو میں بہہ کر ایسا کام کرتی ہیں۔ والدین تھوڑی سی توجّہ، فہم و فراست سے اُنہیں اس جال سے نکال کر راہِ راست پر لاسکتے ہیں۔ اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہونا ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم خود کوشش نہیں کریں گے، تو پھر زمانے کا تازیانہ ہمیں سبق سِکھا دے گا، جیسا کہ تاریخ میں ہوتا چلا آیا ہے، لیکن اُس وقت تک نہ جانے ہمارا کتنا نقصان ہو جائے۔‘‘
خطرناک ’’ہتھیار‘‘ سے لیس ہر دوسرا پاکستانی
موبائل، انٹرنیٹ، آن لائن سروسز اور طرح طرح کی دوسری بے شمار سہولتیں کوئی بُری بات نہیں اور جدید معاشروں میں یہ سہولتیں سائنسی اور سماجی ترقّی کا ایک وسیلہ ہیں، تاہم ایک آئی ٹی ایکسپرٹ، محمّد عُمر جنجوعہ کے خیال میں ’’پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ 22 کروڑ آبادی کے مُلک میں، جہاں خواندگی کی شرح 60 فی صد ہے اور5 کروڑ سے زاید افراد نیم خواندہ یا اَن پڑھ ہیں، تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل فونز دے دینا ایسا ہی ہے، جیسے کسی بچّے کے ہاتھ میں کوئی خطرناک ہتھیار دے دیا جائے۔
بلاشبہ، لوگ اِس سہولت سے فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں، لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اِس کا غلط، بے جا اور فضول استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق، موبائل فونز کے16 کروڑ سے زائد صارفین ہیں اور مستقبل قریب میں یہ مجموعی آبادی کا100 فی صد ہو جائے گا جو کہ دنیا میں ایک ریکارڈ ہوگا، کیوں کہ ایک ایک صارف نے اپنے نام پر 5،5 سمز رجسٹر کروائی ہوئی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسرا پاکستانی موبائل کی شکل میں اِس خطرناک ہتھیار سے لیس ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق،2021 ء میں اسمارٹ فونز 4جی براڈ بینڈ سبسکرائبرز کی تعداد پہلی مرتبہ10 کروڑ سے بڑھ گئی۔
ٹیلی کام انڈسٹری نے عوام کے اِس شوق یا جنون کو کیش کرتے ہوئے صرف ایک سال (2021ء) میں مختلف ٹیکسز کی مد میں 1.79 کھرب روپے کمائے۔ انٹرنیٹ بھی ہمارے ہاں آن لائن شادیوں، ویڈیو گیمز اور دیگر قباحتوں کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ ڈیجیٹل پاپولیشن کے ایک سروے کے مطابق، 2021ء میں انٹرنیٹ صارفین کی شرح 54 فی صد تھی، جس میں سے66 فی صد صارفین کا تعلق کراچی، لاہور، اسلام آباد، راول پنڈی سے تھا۔ نیٹ کی سہولتیں چوں کہ اب اسمارٹ موبائل فونز پر بھی پیکچرز کی صُورت دست یاب ہیں، اِس لیے نیٹ نے پاکستان کے طول و عرض میں اپنی حکم رانی قائم کرلی ہے۔
ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ نیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت نوجوان نسل سے تعلق رکھتی ہے اور ماہرین کے خیال میں یہی وہ زندگی کا نازک اور جذباتی دَور ہوتا ہے، جب کوئی معمولی سی نادانی، غلطی اور رہنمائی کا فقدان انھیں راہِ راست سے بھٹکا سکتی ہے۔‘‘ محمّد عُمر نے کہا،’’مَیں نہیں کہتا کہ سب نوجوان منفی کام کرتے ہیں، لیکن جیسا کہ دانش وَر اور ماہرین اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں اب تک اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی بجائے صرف امتحانی پرچہ جات میں کام یابی کی تعلیم دی جاتی رہی ہے، اِس لیے مجموعی طور پر ہمارا اخلاقی تارو پود کم زور ہونے کے باعث جدید سہولتوں کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب جب کہ قدم قدم پر سنہرے جال بچھے ہیں، تو ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم خار دار تاروں اور نوکیلی جھاڑیوں میں اُلجھے ہوئے معاشرے میں اپنے معاشرتی پیراہن کو کس طرح بچا کر زندگی کا سفر طے کرتے ہیں۔ ‘‘