اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کےلانگ مارچ کے دوران وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کی گئی راستوں کی بندش اور گرفتاریوں کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنکے صدر شعیب شاہین کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کے دوران حکومت کو چھاپے بند کرنے اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں سے روکتے ہوئے انہیں اسلام آباد کے سیکٹر جی اور ایچ نائن کے درمیان جلسہ گاہ اور دھرنا دینے کے لئے جگہ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا ہے.
عدالت نے گرفتار وکلاء کو فوری رہا کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ذمہ داران کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے کہ اس کے کارکن سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں اور سری نگر ہائی وے پر ٹریفک بہائو میں خلل نہ ڈالا جائے.
عدالت نے واضح کیا کہ عدالت بطور ثالث ساری صورتحال کی نگرانی کرے گی، فاضل عدالت نے حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو رات دس بجے چیف کمشنر اسلام آباد کے آفس میں مذاکرات کرنے بھی ہدایت کی ہے، مظاہرین کو جلسے کے بعد پرامن لوٹنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو تین گھنٹوں کے اندر اندر جلسہ گاہ کے لئے مقرر کی گئی جگہ کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کر دی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے عدالت کو راستوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے.
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے واضح کیا ہے کہ عدالت بطور ثالث ساری صورتحال کی نگرانی کرے گی اور بوقت ضرورت اپنا حکم نامہ تبدیل، ترمیم اور واپس بھی لے سکتی ہے، فاضل جج نے پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا پولیس کا کام گاڑیاں توڑنا اور آگ لگانا ہے؟ لاہور کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے، پنجاب میں جو ہورہا ہے وہ بدقسمتی ہے.
احتجاج روکنے کیلئے چھاپے اور گرفتاریاں غیرقانونی عمل ہے، تاہم عدالت پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دیگی، شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کریںگے،16 ایم پی او کے تحت اقدامات کے حوالے سے بھی حکمنامہ جاری کرینگے، حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط اور اعتماد کا فقدان ہے، جو انشا اللہ ختم ہوجائے گا.
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے مطالبات واضح ہیں کہ جے یو آئی نے جہاں دھرنا دیا تھا؟ وہیں پر انہیں بھی اجازت دی جائے، ایسا پلان ترتیب دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے جلسے میں شرکت اور احتجاج کے بعد گھروں کو واپس لوٹ جائیں، یہ نہ ہو کہ جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کردی جائے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے، صبح سے کیا اسلحے والی کہانی سنائی جا رہی ہے، اسلحہ کہانی کو اب بند کردیں، 16ایم پی او کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آرز بھی نہیں چلیں گی.
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے آئینی درخواست کی سماعت کی توعدالت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ، اسلام آباد کے چیف کمشنر، آئی جی، ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل کو دن12 بجے تک طلب کرتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹسز جاری کردیئے اور اسی معاملہ سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التواء کیس میں جاری کئے گئے احکامات طلب کرلئے.
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکول اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے پر اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے، کیا ہر احتجاج پر ہی پورے ملک کو بند کر دیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کردیئے گئے ہیں.
بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستوں کی بندش کی وجہ سے نہیں پہنچ سکا ہے، اسکولوں کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹفکیشن جاری ہوئے ہیں.
جسٹس اعجاز الاحسن نے واضح کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جان کو خطرہ ہے.
حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان پر خودکش حملے کا خدشہ ہے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اصل معاملے سے دور جارہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈروں اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں پر چھاپے مارنے میں کیا مزا آتا ہے؟
حکومت کو، سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟ جسٹس اعجازلاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کیلئے اسپتال جانا مشکل ہوچکا ہے۔