• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران اتحادیوں اور پی ٹی آئی کیلئے ممکنہ مسئلے کا قابل قبول حل

اسلام آباد ( تبصرہ ،انصار عباسی) پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے پرانے موقف میں نرمی کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ قومی اسمبلی کی تحلیل اور الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اس سے قبل وہ مستقل کہہ رہے تھے کہ وہ صرف اسی صورت مذاکرات پر آمادہ ہوں گے جب انہیں الیکشن کی تاریخ دی جائے اور قومی اسمبلی تحلیل کی جائے۔ یہ نئی صورتحال حوصلہ افزا ہے اور یہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باضابطہ طور پر مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

عمران خان نے اچانک اپنا حقیقی آزادی مارچ کیوں ختم کیا؟


وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو قومی اسمبلی سے خطاب میں عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ دونوں فریقوں کے درمیان بدھ کی صبح کو ملاقات ہو چکی ہے جس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ثالثی کی تھی۔

 تاہم، ملاقات بے نتیجہ رہی اور اس کی وجہ مبینہ طور پر صرف ایک شخص شاہ محمود قریشی کی ہٹ دھرمی تھی۔ اور اب عمران خان کے موقف میں حوصلہ افزا تبدیلی کی وجہ سے مظاہرے کے رویے سے مذاکرات پر توجہ مرکوز ہو پائی ہے، دونوں فریق کسی درمیانے راستے پر اتفاق کر سکتے ہیں جس میں معاشی فیصلوں کو سیاسی فیصلوں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔

ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے مشکل سیاسی فیصلوں کی وجہ سے سیاسی قیمت چکانے کا بوجھ مل کر برداشت کرنے کا فیصلہ کیا تو الیکشن کی تاریخ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر اتفاق ہو سکتا ہے۔

اگرچہ حکمران اتحاد کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے سخت فیصلہ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن صورتحال اب بھی غیر یقینی کا شکار ہے اور اب بھی رواں سال اکتوبر میں انتخابات کے امکانات موجود ہیں۔ جمعرات کو حکومت نے تیس روپے فی لٹر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔

 عوام کی طرف سے اس اضافے کی وجہ سے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے اثرات مہنگائی کی صورت میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں سامنے آئیں گے۔

 تیل کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوگا اور یہ اضافہ بھی بڑا ہی ہوگا جس سے عمران خان حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی، اس سے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جائے گا۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور یہ بھی آئی ایم ایف کی ایک شرط ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے معاشرے کے مخصوص طبقے کیلئے حکومت کی جانب سے ریلیف پیکیج کے اعلان کے باوجود مہنگائی شدید ہوگی۔

 آج کی بات کی جائے تو حکومتی اتحادی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

 انہوں نے تیل کی قیمتوں کے حالیہ فیصلے پر نون لیگ کی حمایت کی۔ تاہم، مستقبل قریب میں اُس وقت کیا ہوگا جب حکومت ایک مرتبہ پھر پٹرول پر کم از کم 18؍ روپے اور ڈیزل پر 50؍ روپے فی لٹر کا اضافہ کرے گی تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی جا سکیں۔حکومتی اتحاد میں سے کوئی ایک جماعت علیحدگی کا اعلان کر سکتی ہے۔

شہباز حکومت روزِ اول سے ہی زد پذیر ہے اور مشکل فیصلوں کی وجہ سے اسے مزید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عمران خان کی جانب سے اپنا موقف نرم کرنا اور مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کرنا مسئلے کے حل کا ایک موقع لگتا ہے اور یہ صورتحال حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

 پہلے ہی عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دینے والی حکومت کے پاس موقف ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل بیٹھ کر اگلے انتخابات کی تاریخ اور متعلقہ امور پر بات چیت کرے اور پی ٹی آئی سے مطالبہ کرے کہ وہ معاشی فیصلوں میں حکومت کا ساتھ دے کیونکہ یہ فیصلے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے اہم ہیں۔

 پی ٹی آئی خود کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بچا نہ پائی جن کی وجہ سے موجودہ مشکل فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں پی ٹی آئی کی جانب سے اتحادی حکومت کے ساتھ مشکل فیصلوں کا بوجھ مل کر برداشت کرنے کے فیصلے سے نون لیگ اور دیگر اتحادی جلد انتخابات کیلئے رضامند ہو سکتے ہیں، یہ الیکشن رواں سال اکتوبر سے قبل ممکن نہیں لگتے۔

اہم خبریں سے مزید