جون میں بڑھتی ہوئی شدید ترین گرمی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت کو عروج ہے دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف پنجاب اور کے پی کے میں بڑے بڑے جلسے کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرکے ایک دوسرے پر اپنی سیاسی بالادستی کا لوہا منوانے کے لئے وسائل کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں حکومتی اتحادی جماعتوں بالخصوص (ن)لیگ اور پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اور کے پی کے کو اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کےلئے سیاسی محور بنا رکھا ہے۔
پنجاب میں گورنر پنجاب اور صوبائی کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد حکمران جماعت ایک ماہ سے جاری آئینی بحران پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہے اور انتظامی امور چلانے میں حائل رکاوٹیں دور ہونے سے صوبے پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے مگر پی ٹی آئی کے منحرف 25اراکین کے ڈی سیٹ ہونے سے اپوزیشن اور حکومتی اتحادی دونوں جماعتوں کے پاس پنجاب اسمبلی کے ایوان کی سادہ اکثریت نہ ہونے سے سیاسی صورتحال ابھی گھمبیر ہے۔ کیا ان حالات میں ن لیگ اس بحران سے نکل پائے گی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کا اچانک اجلاس بلاکر حکومتی اراکین کی ایوان میں عدم موجودگی میں اپنے خلاف پیش کی گئی حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی کی تحریک عدم اعتماد کو نمٹاکر نہ صرف اپنی اسپیکر شپ بچالی بلکہ اسمبلی پر پہلے سے زیادہ گرفت مضبوط کرلی ہے جو مسلم لیگ ن کے لیے آئندہ اہم سیاسی اور انتظامی فیصلوں پر اثر انداز ہوگی۔
حکومت کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری اور دیگر افسران کے خلاف مقدمات اوران کے گھروں پر پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں سے بڑی جگ ہنسائی ہوئی ہے اور ایوان کی بے توقیری کے چرچے زبان زدِ عام ہیں جو جمہوری اداروں اور جمہوریت کے استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب 6جون کو ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے، اسپیکر چودھری پرویز الٰہی اب ایوان کے اندر اور باہر وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔
وہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی مشاورت سے پنجاب کو سنگین آئینی بحران سے نکالنے کے لیے نئی صف بندی کررہے ہیں اور وہ اس حوالے سے اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت کیسوں کے فیصلے آنے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں، اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران کا کوئی حل نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو اس کے اثرات وفاق میں مسلم لیگ ن کی وفاقی مخلوط حکومت پربھی پڑیں گے۔
جس کے نتیجے میں وفاقی بجٹ کے بعد ملک میں فوری نئے انتخابات کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ جائے گا کیونکہ وفاق اور پنجاب میں اراکین پارلیمنٹ کی عددی اکثریت کم ہونے کے باعث مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے غیرمقبول فیصلے کرنے سے انہیں عوام کے ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ جماعت اسلامی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں آنے والے مہنگائی کے طوفان پر نظر رکھتے ہوئے ملک میں پٹرولیم مصنوعات اور روز مرہ کی اشیاءکی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموارکرنے کے لیے احتجاجی جلسوں، ریلیوں اور لانگ مارچ کے پروگراموں پر عمل شروع کردیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد کے لانگ مارچ کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے چھ دنوں کے بعد دوبارہ نئے پروگرام یعنی اسلام آباد آنے کا اعلان کیا ہے مگر اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت جس کی اسلام آباد مارچ سے قبل واقعی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا قریباً قریباً فیصلہ کرچکی تھی، پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کے لانگ مارچ کے اچانک ڈراپ سین کے بعد اب پہلے سے زیادہ پراعتماد اور پرعزم نظر آرہی ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے عمران خان کے چھ دن کے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران خان کی کسی دھمکی یا دباؤ میں نہیں آئیں گے اور انتخابات کب ہونے ہیں، اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ وزیراعظم کی اِس بات سے لگتا ہے کہ حکومت کو لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کا بخوبی اندازہ ہوگیاہے۔ پی ڈی ایم اوروزیراعظم میاں شہبازشریف کو یہ موقعہ خود عمران خان نے فراہم کیا ہے۔ قومی اداروں پر تنقیداور دھمکی آمیز زبان استعمال کرکے اور لاہورکی بجائے پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کرکے انہوں نے اپنے سیاسی بھرم کو زائل کردیا ہے۔
جو انہوں نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور کراچی میں اپنے تاریخی جلسوں میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے مقتدر اداروں اور حکومتی جماعتوں پر اپنی دھاک بٹھائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی نے اپنی ساری امیدیں اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ کرلی ہیں۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اوران کی حکومت کی ریاستی مشینری پر پوری گرفت ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ مکمل کررہے ہیں۔
اب اصل مسئلہ دن بدن گرتی ہوئی قومی معیشت کی بحالی کا ہے اور آئندہ قومی بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈال کر چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم مخلوط حکومت اپنا وجود برقرار رکھ پاے گی یا ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کرکے عوام سے نئے مینڈیٹ کے حصول کے لیے نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا کیوں کہ اندرونی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی معیشت پر کوئی میثاق نہ کیا تو موجودہ نظام کو خطرات لاحق رہیں گے۔