• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کی سپر ہٹ فلم ’’شبانہ‘‘ کی کہانی شباب کیرانوی نے لکھی، جنہیں گھریلو، معاشرتی اور رومانی فلمیں بنانے میں خاصہ تجربہ تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک عام فارمولا کہانی میں کچھ ایسے دل چسپ اور چونکا دینے والے مناظر شامل کرلیتے تھے، جو فلم بینوں کو بے حد محظوظ کرتے تھے۔ کمرشل فلموں میں ان کی کام یابی اور نام کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ زیرِ تبصرہ فلم میں اداکارہ بابرہ شریف، وحید مراد اور شاہد نے اپنے فنی کیریئر کے یادگار رولز پلے کیے۔ اپنے دور میں ڈائمنڈ جوبلی بنانے والی یہ سپر بلاک بسٹر فلم جمعہ 12نومبر 1976ء کو کراچی کے مین سینما پلازہ میں ریلیز ہوئی۔ 

فلم بینوں کا ایک ہجوم ہرشو میں اس فلم کو دیکھنے کے لیے موجود رہتا تھا۔ خصوصاً خواتین کا ریکارڈ توڑ رش پہلی بار کسی فلم کو استقبال دینے کے لیے موجود تھا۔ خواتین کےدل چسپی کا یہ عالم دیکھتے ہوئے پلازہ سینما نے بدھ کے روز اس فلم کو خواتین کے لیے مخصوص کردیا تھا۔ 3بجے اور 6بجے والے شوز میں صرف اور صرف خواتین اس فلم کو دیکھنے کے لیے آتیں ۔ 

پلازہ سنیما کی دیکھا دیکھی پاکستان کے دیگرشہروں میں موجود سینما ہائوسز نے بھی اس کی تقلید کی۔ حیدر آباد، لاہور، راول پنڈی، ملتان اور پشاور میں جہاں جہاں اس فلم کی نمائش ہوتی، بدھ کا روز صرف خواتین کے خصوصی شوز رکھے گئے۔ اس فلم نے باکس آفس کو اس نئی روایت سے روشناس کروایا۔

بعد میں دیگر فلموں کے لیے بھی خواتین کے شوز رکھے گئے۔ اس فلم کی کہانی کا اہم کردار اور کہانی خواتین سے جڑی ہے۔ منجھی ہوئی سدا بہار اداکارہ بابرہ شریف جو اس فلم میں ’’شبانہ ‘‘ کے ٹائٹل رول میں تھیں، اس کی کہانی کا مرکزی اور بنیادی کردار تھیں۔ یہ دو ہم شکل بہنوں فرزانہ اور شبانہ کی کہانی تھی۔ فرزانہ جو ایک ذمے دار اور سادہ لڑکی تھی۔ 

اپنی ماں اور چھوٹی بہن شبانہ کے لیے شب و روز محنت کرتی، ایک پرائیویٹ کمپنی میں ٹائیپسٹ کی جاب کرتی۔ کمپنی کے عیاش ومکار مالک نے شادی کرکے اس کی زندگی تباہ کردی اور اسے چھو ڑ دیا۔ فرزانہ مرنا چاہتی تھی، مگر تقدیر نے اسے زندہ رکھا۔ چھوٹی بہن کو جب اپنی باجی کی کہانی کا معلوم ہوا، تو اُس نے اختر سے انتقام لینے کے لیے اُ س کے چھوٹے بھائی انور سے شادی کرلی۔

اختر نے جب دیکھا کہ اُس کی بیوی فرزانہ اب اس کے چھوٹے بھائی کی بیگم بن گئی ہے، تو وہ چوں کہ شبانہ نے فرزانہ بن کر اختر کی نیندیں حرام کردی ہیں، ایک روز انور نے اختر اور اپنی بیوی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی، جس سے اُسے معلوم چلا کہ اس کی بیوی پہلے اُس کے بڑے بھائی کی بیوی رہ چکی ہے، تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ اپنی بیوی کو بے وفا سمجھنے لگا۔ انور نے اپنے درد کا علاج کلبوں اور شراب خانوں میں تلاش کیا۔

ایک روز اختر نے اپنی سال گرہ والے دن ایک بہت بڑی محفل سجائی اور اس محفل میں اس نے اپنے بڑے بھائی اختر اور اپنی بیگم کی شادی کے راز کو افشاں کرنے کے لیے دونوں کی ایک قدآور تصویر لگائی ، جسے دیکھ کر تمام محفل شیم شیم کرنے لگی۔ شبانہ یہ منظر دیکھ کر ہنسنے لگی۔ ایک تحفہ اس محفل میں میرے شوہر نے دیا اور ایک تحفہ میں اپنے پیارے شوہر کو دینا چاہوں گی۔ 

یہ کہتے ہوئے اُس نے انور کو کہا، انور صاحب پردہ اٹھائیے، جیسے ہی انور نے پردہ اٹھایا، تو شبانہ کی بڑی بہن فرزانہ اپنے بچے کے ساتھ بیساکھیوں پر مظلومیت کی تصویر بنی کھڑی تھی، جسے دیکھ کر ساری محفل حیران ہوگئی، شبانہ نے اپنی بہن کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنائی، تو انور کی آنکھیں کُھل گئیں اور وہ اپنی بیوی شبانہ کی عظمت اور پاکیزگی کا قائل ہوگیا۔ 

اختر بھی اس موقع پر بہت ہی پشیمان ہوگیا اور آخر کار اُس نے فرزانہ کو بیوی اور اپنے بچے کو تسلیم کر لیا۔ فلم کے اس وائنڈاَپ میں بابرہ شریف کی اداکاری پر سینما ہالز تالیوں سے گونج جاتے تھے۔ اس فلم میں وہ اپنی عمدہ کارکردگی کے انمٹ نقوش چھوڑنے میں بھرپور کام یاب رہیں۔ اس فلم سے ان کی فین شپ کی ریٹنگ اُس وقت کی تمام فی میلز ایکٹریس میں سب سے آگے رہی۔

فلم کے دیگر اداکاروں میں اداکار ننھا نے اداکار شاہد کے ملازم فخرو کے کردار میں بے ساختہ اور برجستہ مزاحیہ مکالموں کے ساتھ عمدہ اداکاری کی، وہ فلم کے جس منظر میں آئے، اپنے مکالموں سے قہقہوں کی بارش کرگئے۔ اس فلم میں ننھا کا تکیہ کلام ’’ہر دور میں ہم جیسوں کے ساتھ یہی ہوا ہے‘‘ بھی مقبول ہوا۔ اداکار مسعود اختر کا کردار فلم میں اداکار شاہد کے آفس منیجر اشفاق کا تھا، جو اپنی ترقی اور ملازمت کے لیے اپنے مالک کے لیے ہر ذلت کا کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ اپنے عیاش مالک کے لیے عیاشی کے سامان کا اہتمام کرتا ہے۔ اپنے اس کردار میں وہ بے حد پسند کیے گئے۔ 

خاص طور پر ان کا ایک مکالمہ میں اس دور خاصا مقبول ہوا ’’ساری زندگی یہی کیا ہے‘‘ فلم میں ایک دل کش آئٹم سونگ ’’تو نے پیار سے دیکھا تو میں، اپنے دور کی مقبول رقاصہ پروین بوبی پر فلمایا گیا۔ اس گانے میں ان کا رقص بہت عمدہ تھا۔ اداکارہ سیما بیگم نے اس فلم میں بابرہ شریف کی بیمار ماں کا کردارادا کیا۔ 

اداکارہ تمنا بیگم اس فلم کے مختصر کردار میں نظر آئیں، ’’بوا‘‘ کا یہ مختصر کردار بھی انہوں نے بہتر انداز میں پیش کیا۔ اداکار ساقی بہ طور مہمان ڈاکٹر کے کردار میں نظرآئے۔ کمال ایرانی نے بھی بہ طور مہمان اداکار شاہد اور وحید مراد کے والد کا کردار کیا۔ اداکارہ زرقا نے ایک موڈرن لڑکی کا رول کیا، جو بابرہ شریف کی سہیلی کا کردار تھا۔ اداکار ناظم نے زرقا کے بوائے فرینڈ کا مختصر کردار کیا۔

ہدایت کار نذر شباب نے اس فلم کی ڈائریکشن میں خود کو ایک بڑے ڈائریکٹر کے بیٹے ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔ شباب پروڈکشن کی اس فارمولا کہانی کو انہوں نے اپنے بہترین ٹریٹمنٹ سے ایک اعلیٰ اور یادگار شاہ کار فلم بنا دی، جس نے باکس آفس پر ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ فلم کی کہانی مکالمے اور منظرنامہ شباب کیرانوی کا تحریر کردہ تھا۔ 

فلم کے موسیقار ایم اشرف نے اس فلم کی موسیقی میں شان دار کارکردگی انجام دیتے ہوئے ایک بار پھر فلم بینوں کے دل رسیلے گیتوں سے جیت لیے۔ گانوں کے بول تسلیم فاضلی نے لکھے، جو فلم کی کہانی اور مناظر کی سچوئیشن کے مطابق تھے۔ موسیقار ایم اشرف کواس فلم کی موسیقی پر نگار ایوارڈ دیاگیا۔ گلوکار مہدی حسن کو فلم کا سپر ہٹ گیت ’’تیرے سِوا دُنیا میں کچھ بھی نہیں‘‘ کی گائیگی پر سال کے بہترین گلوکار کا نگارایوارڈ ملا۔

فلم’’شبانہ‘‘ اداکارہ بابرہ شریف کی پہلی ٹائٹل فلم تھی، جس میں ان کا ڈبل رول تھا۔ بابرہ نے شبانہ کے کردار میں ایک شوخ و چنچل لڑکی کے روپ میں بے ساختہ اداکاری کامظہر نظر آئیں، تو بڑی بہن فرزانہ کے کردار میں ایک سادہ، ذمے دار اور حساس خاتون خانہ نظرآئیں۔ فرزانہ کا کردار ان کے لیے ایک چیلنج تھا، یہ وہ کردار تھا، جس کی گہرائی اس کھوکھلے معاشرے کو جھنجوڑنے کے لیے کافی تھی۔ 

جہاں دھوکا دہی، فریب، چالاکی، عیاری کو لوگ محبت کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک مظلوم لڑکی کی تصویر تھی۔ بڑی بہن پر ہونے والے ظلم کا حساب چھوٹی بہن شبانہ نے ایک نئے انداز میں لیا اور اس انداز میں انہیں دیکھ کر خواتین فلم بین وارفتہ ہوگئیں۔ پُوری فلم میں بابرہ فن کی اُن بلندیوں پر نظر آئیں، یہ پرواز ہر آرٹسٹ کو نصیب نہیں ہوتی۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید