• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس سے تیل لینے کی کہانی جھوٹی ہے، مریم اورنگزیب

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ روس سے تیل لینے کی کہانی جھوٹی ہے، حماد اظہر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.

 نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں کہا گیا کوئی سازش نہیں ہوئی، اداروں کیخلاف مہم پر قانون اور آئین کے مطابق ایکشن ہوگا۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ میں پچھلے دو مہینے سوچتا رہا کہ پاکستان کی معیشت کو سدھارنا مشکل کام ہے یا میڈم مریم اورنگزیب کو انٹرویو پر آمادہ کرنا مشکل کام ہے۔

 بہرحال میرے لئے تو یہ کام مشکل بن گیا تھا کیونکہ پہلے بھی وہ گریز کرتی رہیں ٹی وی انٹرویو دینے کے لئے۔ پھر جب سے حکومت پاکستان کی ترجمان بنی ہیں وزیر اطلاعات بنی ہیں اس کے بعد تو لگتا ہے کہ انہوں نے ایسی قسم کھا رکھی تھی کہ نہ جانے اور انٹرویو نہ دینے کی جس طرح کہ عمران خان نے سازشی تھیوریز گھڑنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

بہرحال اللہ نے مہربانی کی میں تو بڑی منتوں کے بعد کامیاب ہوا ان کو انٹرویو کے لئے لانے پر۔ اب دعا ہے کہ ان کی حکومت بھی معیشت کو کنٹرول کرنے پر آمادہ کرسکے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ یہ جو ان کی عادت ہے اس کو بدلیں گی نہ صرف ہمارے پروگرام کو رونق بخشیں گی بلکہ باقی جو پروگرام ہیں اور باقی ٹی وی چینل ہیں وہاں پر جانے کی زحمت گوارہ کریں گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ نے کہا کہ دو مہینے لیکن یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ یہ پہلا میرا آپ کے ساتھ جرگہ کا انٹرویو ہے۔

میں اس سے قبل ٹاک شوز میں شرکت کرتی رہی لیکن ایک ایسا واقعہ ہوا میرا ایک انٹرویو ہورہا تھا اور اس میں علی اعوان اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے میرا ان کے ساتھ بڑا اچھا ورکنگ ریلیشن شپ تھا۔ تو میرا اور ان کا انٹرویو چل رہا تھا تو انٹرویو شدت اختیار کرگیا ذرا بحث زیادہ ہوگئی اس میں ان کے منہ سے گالی نکل گئی وہ میرے لئے ایسا چونکا دینے والا تھا۔

 ڈیبیٹ کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ ہم ایک ٹاک شو میں جو ہم نے عوام کو اپنے ڈائیلاگ اپنے ڈسکوز اپنے مباحثے کے ذریعے یہ بتانا ہے کہ ہمارا کیا موقف ہے۔

میرے ساتھ جو مخالف پارٹی بیٹھی ہے اس کا کیا موقف ہے اور وہاں ایک دوسرے کو گالیاں دیں اس کے بعد میں نے یہ سوچا کہ میں اس سطح پر نہیں جاسکتی تھی اور نہ میرا ارادہ کبھی بھی ہے کہ یہ لڑائیاں ٹاک شوز پر اور اس طرح کی حرکتیں۔ تو پھر میں نے کہا کہ میرے ہاتھ میں تو یہ ہے کہ میں ٹاک شوز میں نہ جائوں۔

اس زمانے میں ایک لہر تھی کہ عمران خان روز شام کو بیٹھ کر ترجمان کو حملہ کرنے کا چاہے وہ خاتون ہو چاہے وہ ن لیگ کے اور لوگ ہیں ان کو صرف اٹیک کرنے کی آپ نے لڑائی کرنی ہے اور گالم گلوچ پر چلی جائے بات، تو میں نے کہا کہ میرے ہاتھ میں اور کنٹرول میں تو ایک ہی بات ہے کہ میں نہ جائوں۔

کیونکہ آپ کے بچے آپ کی فیملی دیکھ رہی ہوتی ہے ان کے جذبات آپ جیسے صابر نہیں ہوتے۔ انفارمیشن وائز آپ کو کبھی بھی یہ گلہ نہیں ہوگا کہ میں کسی طرح بھی اپنی پارٹی کا موقف اور حکومت کا موقف چار سال بھی میڈیا کے اوپر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر پارٹی کا موقف نہ آیا ہو۔ چار سال میں پوری طرح ٹاک شوز سے الگ نہیں ہوئی یہ آخری کوئی ڈیڑھ سال تھا جس وقت اپوزیشن میں ہم تھے تو میں نے ٹاک شوز میں جانا چھوڑا اور میں سمجھتی ہوں میرا بالکل ٹھیک فیصلہ تھا۔

 اس وقت حالا ت ایسے تھے کہ مخالف پارٹی آپ کے ساتھ بحث نہیں کرتی تھی آپ کی عزت کو انہوں نے ہر ٹاک شوز میں اٹیک کرنا ہوتا تھا۔ میری وزارت میں صبح پہلی ہماری پونے آٹھ بجے وزیراعظم کوبریفنگ ہوتی ہے اس کے بعد میں اپنی وزارت میں ہوتی ہوں۔

 جب میں نے2013ء میں سیاست میں حصہ لیا تو میڈیا سیل پر بڑی تنقید ہوتی تھی وزیراعظم ہائوس میں ایک میڈیا سیل ہے جس میں یہ سارے بیٹھ کر پتہ نہیں کیا سازش کرتے ہیں۔ تومیں تین سال ان کے ساتھ کرسی پر بیٹھی اور جو میں نے سیکھا کہ ہر چیز کتنے مائیکرو لیول پرکرنی ہے خود کرنی ہے وہ ٹکر خود تحریر کرتی تھی اور وہی عادت میری آج تک ہے۔ ہمارا سوشل میڈیا ایک ایسا ایریا ہے جس میں کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارا سوشل میڈیا صرف مریم نواز شریف ہیڈ کرتی تھیں۔

 ن لیگ کے لئے سوشل میڈیا کی مریم نواز نے2013-14ء میں بنیاد رکھی ہمارا میڈیا پیسے دے کر سوشل میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ووٹرز ہیں ہمارے سپورٹرز ہیں لیکن سوشل میڈیا کے بھی لیڈ اسکیپ اور کاسمیٹک بدلے ہیں۔

پی ٹی آئی والے لوگوں کو ہائر کرکے ساتھ لے گئے تھے وہ ان کے پیڈ لوگ تھے انہوں نے سرکار کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ ن لیگ کا اس وقت سوشل میڈیا پر ایک فوکس ہے کیوں کہ سوشل میڈیا صرف ٹوئٹر نہیں ہے بلکہ مختلف پلیٹ فارم کا مجموعہ ہے ڈیجیٹل میڈیا جس کو کہتے ہیں۔ ہم میں اور اُن میں بڑا فرق ہے اگر آپ اداروں کے خلاف ایک سوچی سمجھی منظم مہم چلائیں گے جو نہ آئین اجازت دیتا ہے نہ پیمرا کا قانون اجازت دیتا ہے۔ ہمیں تنقید کا کوئی خوف نہیں ہے آپ جتنا مرضی تنقید کریں ہم اس کو اصلاح کے لئے استعمال کریں گے۔

 لیکن جب آپ اداروں پر بطور ادارہ آرگنائزڈ طریقے سے مہم چلائیں گے تو پھر قانون اور آئین کے مطابق ایکشن ہوگا۔ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں کہ کسی ادارے پر کبھی بھی ہماری قیادت نے یا ہم میں سے کسی نے ادارے کے خلاف کوئی منظم مہم چلائی ہو۔ لیکن جو آپ کا آئینی رول ہے حدود ہے اس سے باہر نکلیں گے تو ادارے کے اندر ایسے لوگ ادارے کو بھی خراب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ادارے کے خلاف آپ کوئی ایک منظم مہم ثابت کردیں سوشل میڈیا اور ہماری تقاریر کا ریکارڈ ہے آپ نکال لیں۔ لیکن جب سے عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے گئے ہیں تو اس کے بعد جس گائوں میں، میں نہ ہوں اس گائوں کو آگ لگا دو۔ جس کرسی پر میں نہ ہوں اس کرسی اس ملک کو خدانخواستہ تین حصوں میں تقسیم کردو۔

 بیرون ملک سازش کا ایک بیانیہ لے کر آئے اس کے بعد جب وہ اپنی موت مرنے والا ہے خود تو میری جان کو خطرہ ہے وہ والا بیانیہ لے کر آگئے۔ پھر اب کہ ملک تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گا ایٹمی قوت چھن جائے گی پتہ نہیں کس قسم کے دماغی اثر کے اندر گفتگو کرتے ہیں یہ ہم نے نہ کیا ہے اور نہ ہم کبھی کریں گے۔

ذرا یہ بتا دیں کہ جو پچھلی حکومت تھی اس نے کتنے مشیر، کتنے وزیر اور کتنے کرائے کے ترجمان امریکا اوردوسرے ممالک سے آئے تھے تو امپورٹڈ کا پتہ چل جائے گا۔ آپ چار سال کر کیا رہے تھے کہ بیرون ملک سازش ہوگی معیشت، خارجہ پالیسی آپ نے تباہ کردی کشمیر فروشی آپ نے کردی۔

 ملک کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو بھیک مانگنے کے لئے مجبور نہ ہو۔ روس گئے امریکی تپ گئے یہ اس وقت یاد آیا جس وقت وہ خط تھا جس کو جیب سے نکالا28 تاریخ کو اور اسی تپنے والے جو ڈاکٹر لو تھے ان کو15 تاریخ کو اپنے سفارت خانے میں بلاکر کی نوٹ اسپیج کرائی۔ اگرآپ کے پاس یہ8 مارچ کو آگیا تھا تو آپ نے اسی وقت پریس کانفرنس کرنی تھی۔

جب عدم اعتماد ناکام ہورہا تھا جب اپنے اتحادی چھوڑ کر جارہے تھے جب اپنے لوگ چھوڑ کر جارہے تھے جب پتہ چل گیا تو پھر22 دن لگے وہ جھوٹا بیانیہ بنانے میں، جس پر نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی یہ تب وزیراعظم تھے۔

 نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے منٹس ریکارڈ کا حصہ ہوتے ہیں اور تمام سینئر قیادت بیٹھی ہوتی ہے اور یہ اس وقت اس کو چیئر کر رہے تھے اس کے اندر یہ لکھا ہے کہ کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہماری میٹنگ آئی ان کے اس بیانئے کی وجہ سے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی ایک دفعہ دوبارہ میٹنگ بلائی اس میں پھر یہ اعادہ ہوا کہ کسی قسم کی سازش نہیں ہوئی۔

 یہ کیسی گفتگو ہے کہ آپ بیٹھے بیٹھے کہہ دیں کہ پورا ملک آپ کے اوپر سازش کررہا ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی نہیں پتہ۔ روس کے ساتھ تیل لینے کی کہانی بالکل جھوٹی ہے یہ خط لکھتے رہے وہاں سے جواب نہیں آیا انہوں نے کل بتا بھی دیا کہ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ حماد اظہر کا ایک خط لہراتے ہیں کہ ہمارا معاہدہ ہوگیا تھا کسی قسم کا نہ کوئی دفتر خارجہ میں ریکارڈ ہے نہ کسی قسم کا وزارت پٹرولیم میں ریکارڈ ہے۔

 سیکریٹریز اور دفتر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ یہ جو لوگ آج کل معیشت پر چیخیں مار رہے ہیں ان کو تو عمران خان نے وزارت خزانہ سے ہٹایا ہوا ہے ان پر تو اعتماد عمران خان نے نہیں کیا تھا جو ابھی یہاں آکر معیشت سیکھا رہے ہیں اور اس پر لیکچر دے رہے ہیں۔

جب یہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو اتنی کمزور فٹنگ پر گئے کہ اس وقت معیشت تباہ ہورہی تھی اور انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ کمزور معاہدہ کیا۔ جب یہ پتہ چل گیا عدم اعتماد ایک وہ بیرون ملک سازش ہوگئی ایک اندرون ملک سازش بھی ہوئی تھی کہ انہوں نے پٹرولیم کے اوپر سبسڈی دی خزانہ خالی تھا اس سبسڈی کے لئے کوئی پیسہ موجود نہیں تھا۔ اپنا ہی معاہدہ اور اپنی ہی خلاف ورزی اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ پیٹرول ہم مہنگا کررہے ہیں مطلب ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی۔

جگاڑ کوئی نہیں تھی ایک سینئر افسر نے بتایا کہ جب ان کو پتہ چل گیا کہ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہے اور یہ جارہے ہیں انہوں نے 10 روپے سستا کردیا۔ ان کو یہ نہیں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی سیاست بچانے کے لئے ملکی مفاد سے کھیلا تھا اور پیٹرول 10 روپے کم کرنے کا بھی ان کو فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ عوام کو سب پتہ چل گیا کہ10 روپے انہوں نے کیوں کم کئے کیوں کہ یہ اگلے ہفتے جارہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر پٹرولیم، مفتاح اسماعیل اور وزیر توانائی کویہ کہا کہ مجھے سب سے پہلے یہاں ریلیف ڈیزائن کرکے دو کہ اگر یہ پیٹرول بڑھے گا جو عمران خان کا دستخط شدہ معاہدہ ہے۔ ان کی نالائقی ان کی نا اہلی ان کی بے حسی ہے میں نہیں بڑھائوں گا جب تک ریلیف عوام کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ ایک جماعت کا فیصلہ نہیں تھا یہ اتحادی جماعتوں کا فیصلہ تھا یہ عوام کی آواز تھی۔ یہ عدم اعتماد اگر خدانخواستہ نہ ہوتا تو ملک ایسے کھائی میں گرنے والا تھا۔

 آپ کو اگر اپنے وزیراعظم پر عدم اعتماد ہے تو آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ آپ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ایک اور وزیراعظم لے آئیں۔ فرق یہ ہے کہ چار سال قانون کا پورا دائرہ مکمل ہوا ہے نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈالا گیا اس میں پوری انکوائری ہوکرتفتیش ہوکر جیل میں گئے۔

شہباز شریف کو تو دو دفعہ ڈالا گیا پھر دو دفعہ انکوائریاں ہوئیں کسی کیس میں بلایا کسی میں گرفتار کیا۔ پھر عدالتوں کا پورا پروسس پورا ہوا تمام لوگ جو جیلوں میں ڈالے گئے تھے ان تمام کے اوپر ضمانتیں تھیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے ملکی جو منصوبے تھے ان کو متنازع کیا چاہے وہ ترکی کے تھے چاہے قطر کے تھے چاہے وہ چین کے تھے چاہے وہ یو اے ای کے تھے چاہے وہ سعودی عربیہ کے منصوبے تھے۔

انہوں نے الزامات لگائے یہاں تک کہ ڈیوڈ روس کو پاکستان بلایا اس کو ساری تفصیلات اور ریکارڈ لے کر دیئے وہ باہر گیا اس نے خبر چھاپی۔ برطانیہ کی این سی اے کو تمام چیزیں بھیجیں انہوں نے مکمل تفیش کی اس کا بھی فیصلہ آگیا کہ کوئی منی لانڈرنگ کوئی کرپشن کچھ نہیں۔

 لاہور ہائیکورٹ کا شہباز شریف کا فیصلہ ہے کہ کسی قسم کا اختیارات کا ناجائزاستعمال نہیں کسی قسم کی منی لانڈرنگ نہیں کوئی کک بیک کوئی کرپشن نہیں۔ ہمارا تو ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے ابھی نیب میں فرح گوگی کا کیس ہے اور ایف آئی اے میں گیا ہوا ہے آپ کے سامنے ساری چیزیں آجائیں گی۔ شوکت ترین پہلے بحث کرتے رہے کہ قرضہ نہیں لیا اب کہہ رہے ہیں کہ 80 نہیں 76 لیا ہے۔ نیب پر میرا تجزیہ لیں تو نیب ادارے کو ختم ہوجانا چاہئے صرف ختم نہیں ہونا چاہئے جو رونگ ڈوئنگ ہیں نیب کی وہ ساری ڈاکیومنٹ ہونی چاہئیں۔

 اتحادیوں کے ساتھ ہماری میٹنگ ہوئی تو اکثریت کا یہ فیصلہ تھا کہ نیب کو ختم کردیں نیب کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاور ت سے بنے گا۔ نیب میں جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون ہیں اس میں ہم نے ترامیم کی ہیں تاکہ اس میں شفافیت لاسکیں لیکن آہستہ آہستہ ایف آئی اے کومضبوط کرنا ہے۔ جتنی ترامیم اس میں ہوئی ہیں موجودہ مقدمات جو انہوں نے سیاسی طو رپر نشانہ بنانے کے لئے بنائے وہ بھی ختم نہیں ہوں گے ہم عدالتوں میں جواب دے رہے ہیں۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں اس کے برعکس جب عمران خان وزیراعظم بنے تھے۔ جب نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو پاکستان کے عوام کہتے ہیں کہ اس وقت شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنانا بہت بہترین فیصلہ تھا کیوں کہ اس کے بعد پنجاب کے صوبے نے جو ترقی دیکھی اس کی مثالیں باقی صوبے والے دیتے تھے۔

 تمام اتحادی جماعتوں نے یہ کہا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بنیں تو یہ فیصلہ نواز شریف اور شہباز شریف کا نہیں ہے۔ ق لیگ کا اپنا آپس کا معاملہ ہے ان میں آپس میں تقسیم ہے چوہدری پرویز الٰہی کا بطور اسپیکر قبولیت کا فیصلہ اتحادیوں نے کرنا ہے۔

کیا اظہار رائے پولیس والوں کو گولی مار کر شہید کرنا ہے کیا جمہوری رائے اظہار وہ پولیس والوں کے سر پھاڑ کر کرنا ہے۔ اسلحے کے ساتھ خونی مارچ کا اعلان کرنا ہے خود کش حملے کی دھمکی دے کرلانگ مارچ کا اعلان کرنا ہے۔

 ہمیں بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ اظہار رائے ہے چار سال ہم نے پی ڈی ایم کے جلسے کئے اور لانگ مارچ کئے ایک گملا ٹوٹا یا ایک بیان میں ملک کو تین حصوں میں تقیسم کرنا خود کش حملہ کرنا یا اسلحہ ہم سے برآمد ہوا ہو۔ خیبرپختونخوا کی پولیس کو استعمال کرکے پنجاب اور وفاق کی پولیس سے اٹک پل پر لڑادو اس کو ساتھ لے کر آئو اور کہو کہ وفاق پر حملہ آور ہونا ہے۔

اہم خبریں سے مزید