• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مکمل پتا لکھا کریں

6مارچ2022کے ایڈیشن میں’’ اپنی شوگر، اپنا علاج‘‘ کے عنوان سے بُک ہوم، لاہور کی کتاب کا تعارف شایع ہوا ہے۔یہ بُک ہوم لاہور میں کہاں واقع ہے؟ مَیں شوگر کا مریض ہوں، آپ سے گزارش ہے کہ ناشر کا مکمل پتا لکھا کریں اور ڈاکٹر صاحبان کا بھی مکمل پتا دیا کریں تاکہ اُن سے رابطہ ہوسکے۔ (قاضی محبوب الہٰی، مصطفےٰ ٹاون، وحدت روڈ، لاہور)

ج: جتنا پتا درج تھا، لکھ دیا گیا۔ جہاں تک ڈاکٹرز کے رابطہ نمبرز یا پتے کی بات ہے، تو وہ اُن کی اجازت کے بغیر شایع نہیں کیے جاسکتے۔

کھٹاس میں کمی

اِس مرتبہ غیر حاضری طویل رہی۔ بڑے صاحب زادے، جوساتھ رہتے تھے، وہ یہاں کاروبار کی خراب صُورتِ حال کی بنا پر کینیڈا، مونٹریال شفٹ ہوگئے تھے۔چناں چہ کئی ماہ وہاں گزار کرعید کرنے کراچی آیا۔بیٹا، رمضان کا اصل لُطف تواپنے وطن ہی میں ہے۔ مُلکی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں، مونٹریال میں ہندو بہت بڑی تعداد میں ہیں اور وہ جس طرح طنز کرتے، مذاق اُڑاتے ہیں، دل کٹ کررہ جاتا ہے۔ کافی عرصے بعد اپنے پیارے میگزین کودیکھا، تو دلی مسرت ہوئی ماشااللہ! تمہاری قیادت میں میگزین خُوب ترقّی کررہا ہے۔

شفق رفیع، رومیصا ظفر، مولانا ڈاکٹر قاسم محمود، ڈاکٹر زاہدہ ثقلین، راؤ محمّد شاہد اقبال اور روبینہ فرید نے رمضان المبارک پر لکھا اور خُوب لکھا۔ عالمی یومِ صحت پر عالیہ کاشف عظیمی نے بھرپور اور معلوماتی انٹرویو لیا، شاباش۔ اپنے منور مرزا سدا بہار ہیں، اُن کے چاہنے والے کینیڈا میں بھی بہت ہیں۔ عرفان جاوید میگزین کی جان ہیں، اخترسعیدی ایک ادیب اور صحافی بلکہ اگر مَیں غلط نہیں، تو شاعر بھی خُوب ہیں، کتابوں پر بھرپور تبصرہ کیا جا رہا ہے۔ آپ کا صفحہ اور تمھارے جوابات میں مٹھاس تو ویسی ہی ہے، لیکن کھٹاس کچھ کم ہوگئی ہے۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خاں، مونٹریال، کینیڈا)

ج: درست فرمایا۔ اختر سعیدی کا سینئر شعرا میں شمار ہوتا ہے۔

بھارت میں بھی جاتا ہے؟

میگزین خُوب سے خُوب تر کی طرف گام زن ہے۔’’ تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ بہترین سلسلہ ہے ،جس سے دینی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ منور راجپوت کے لکھے مضامین بے حد پسند ہیں، انور مقصود ہمارے مُلک کے لیے باعثِ افتخار ہیں، اُن کا انٹرویو پڑھ کر اچھا لگا، اِسی طرح کے مختلف لوگوں کے انٹرویو اور سفر نامے شائع کرتی رہا کریں۔عرفان جاوید جب بھی لکھتے ہیں، چھا جاتے ہیں۔ڈائجسٹ میں جویریہ شاہ رخ کا لکھا ہوا افسانہ سبق آموز تھا۔ اختر سعیدی کتابوں پر تبصرہ خُوب کرتے ہیں۔ صفحہ آپ کا اور ہمارا بے حد پسند ہے، پورا گھر شوق سے پڑھتا ہے۔ یوپی بارہ بنکوی، بھارت سے ذکی طارق کی غزل شائع ہوئی ہے، تو کیا روزنامہ جنگ بھارت بھی جاتا ہے؟آپ کے جریدے میں کوئی سینئر صحافی’’ وہ کراچی کہیں کھو گیا ہے‘‘ کے عنوان سے مضمون تحریر کرے، تواس کی بہت پذیرائی ہوگی اور نئی نسل کو بھی کراچی سے متعلق آگاہی ہوجائے گی۔ (سیّد وارث علی، ملّت گارڈن،ملیر، کراچی)

ج: دنیا میں جہاں بھی اردو پڑھی جاتی ہے، وہاں روزنامہ جنگ کا ای پیپر بھی پڑھا جاتا ہے، جس میں بھارت بھی شامل ہے۔باقی جہاں تک کراچی پر مضمون کی بات ہے، تو روزنامہ جنگ میں شہرِ قائد پر ہر ہفتے ایک خصوصی صفحہ شامل ہوتا ہے۔

امریکاکے بعد آسٹریلیا سے

تازہ سنڈے میگزین میں تقریباً 8 مضامین رمضان پر تھے۔ تمام ہی پڑھ لیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ہر دل عزیز منور مرزا موجود تھے۔ اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس پر کمال کی تحریر عنایت کی۔ کافی عرصے بعد ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ پڑھنے کو ملا، بے حد شکریہ۔ عرفان جاوید کے خُوب صُورت ’’آدمی‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔اختر سعیدی بھی کتابوں کے تبصرے میں کیا خُوب رنگ بھرتے ہیں۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں اب تو امریکا کے بعد آسٹریلیا سے بھی خطوط آنے لگے ہیں۔ اگلے شمارے کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں وحید زہیر کا کتب خانہ بے حد پسند آیا۔ خصوصاً قائدِ اعظم لائبریری، بلوچستان کا نام پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ موجودہ حکم رانوں نے تو پاکستان کی ہر چیز، ہر جگہ کا نام اپنے یا اپنے خاندانوں کے نام رکھ چھوڑا ہے۔ ماڈل، عبادت خان عبایا، اسکارفس میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ڈائجسٹ کی دونوں تحریریں پسند آئیں۔ اِک رشتہ، اِک کہانی کا بھی جواب نہیں۔’’متفرق‘‘ میں پرویز رحیم کی تحریر ’’101موسیقار‘‘ خاصی معلوماتی تھی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:آج کے دَور میں آسٹریلیا سے ای میل آنا کون سی حیرانی کی بات ہے۔ ہمارا انٹرنیٹ ایڈیشن پوری دنیا میں پڑھا اور دیکھا جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے، کبھی آپ کو انٹارکٹیکا کی بھی کوئی ای میل پڑھنے کو مل جائے۔

یہی ہے رختِ سفر ہمارا…

نرجس جی!آپ نے اِس قدر پیار سے پوچھا کہ مَیں ایک سال کہاں رہی؟ تو جناب عرض ہے، کچھ گردشِ زمانہ، کچھ حالات ہمارے..... پھر قوّتِ برداشت ختم ہو گئی، تو بیماریوں کی جکڑ بندیاں۔ بس، مَیں آپ کی ہم نام ہوں، اسی پر بہت فخر ہے کہ ہم نہ سہی، ہمارا نام ہی بلندیوں پہ تو ہے۔ اب آتے ہیں میگزین کی طرف، ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ نے حقِ خصوصیت ادا کردیا۔ رمضان المبارک سے متعلق اِس قدر جامع تحریر ، وہ بھی اتنے دل چسپ پیرائے میں، واہ، واہ۔ دوسری تحریر بھی کم نہیں تھی، برکات و ثمرات کے تحائف۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ سب ہی کے لیے قیمتی مشورے لے کر آیا۔ جن سے گھر بیٹھے خُوب ہی مستفید ہوتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے منظرنامے کے تو کیا ہی کہنے۔ سنڈے اسپیشل بھی اسپیشل ہی ہوتا ہے۔ بلاشبہ، بچّوں کو کچّی عُمر میں صوم وصلوٰۃ کا پابند بنانا چاہیے،کیوں کہ بالآخر یہی ہے رختِ سفرہمارا۔ پیارا گھر کا صفحہ بھی خُوب تھا۔ دونوں ہی تحریریں اچھی لگیں۔ لگ بھگ ہر صفحہ ماہِ رمضان کی فضیلت بیان کرتا نظر آیا، یہاں تک کہ صفحہ ڈائجسٹ بھی۔ مسٹر گیبرئیل کے بارے میں پڑھا، تو ایسا لگا کہ جیسے معلومات کا کوئی انسائیکلوپیڈیا ہواور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تحریریں (خطوط) تو گویا جریدے کے جانِ جاناں ہیں۔ (نرجس مختار، خیر پور میرس، سندھ)

ج: اللہ ربّ العزت آپ کے لیے قدم قدم پر آسانیاں پیدا کرے۔ جریدے کو مختلف مواقع، ایّام کی مناسبت سے ترتیب دینا یوں تو ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، لیکن ماہِ صیام اور دینی و ملّی تہواروں کی خاص تیاری میں ذہنی و قلبی خوشی کا عُنصر بھی غالب رہتا ہے، تو شاید اِسی سبب جریدہ کچھ اور بھی خاص ہو جاتا ہے۔

کرپٹو کرنسی کیا بلا ہے؟

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں شیخ ابوالحسن علی شاذلیؒ سے متعلق پڑھ کر معلومات میں بے حد اضافہ ہوا۔ منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ بیان کر رہے تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائومحمد شاہد اقبال کرپٹو کرنسی کو ایک کھوٹا سکّہ بتا رہے تھے، لیکن یہ کرپٹو کرنسی ہے کیا بلا، ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ سمجھا سکتی ہیں، تو سمجھا دیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ہومیو ڈاکٹر ایس عزیز کا مضمون شایع ہوا، کیا اسے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں ماریہ شمعون نے اپنے خاندان اور تعلیم و تربیت سے متعلق مکمل جواب نہیں دیا۔’’ فیچر‘‘ میں محمد ارسلان فیاض بلوچستان کے پھلوں اور خشک میوہ جات کی تفصیل بیان کر رہے تھے۔ ’’آدمی‘‘ میں کبھی خشک اور کبھی دل چسپ واقعات پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی غزلیں اچھی تھیں۔ ناقابلِ فراموش بھی اچھا لگا۔ اِس بار ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ خیر، کوئی بات نہیں، اگلے شمارے میں آجائے گا۔ خادم ملک سے متعلق مسز خالدہ خان کے خیالات پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ اِسی طرح ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ میں آپ نے خود تسلیم کیا کہ خادم ملک قسمت کے دھنی ہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ کی چھوٹی سی تو سمجھ دانی ہے۔ آپ خادم ملک کے خطوط ہی تک محدود رہیں تو بہتر ہے۔ یہ کرپٹو کرنسی بہت آگے کی چیز ہے، ممکن ہے، اس تک آپ کی رسائی سے پہلے ایک اور نسل پروان چڑھ چکی ہو۔ سو، آپ جانے دیں اور ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ہم صرف ایلوپیتھک ڈاکٹرز ہی کے مضامین شایع کرتے ہیں اور یہ ہماری پالیسی کا حصّہ ہے۔

خط تاخیر سے ملتے ہیں

اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ منقسم دنیا میں آزاد خارجہ پالیسی کے چیلنجز۔ جی ہاں، کیا کریں اگر ایک کی طرف جھکائو ہوگا، تو دوسرا غرّائے گا، کیا کریں۔ تپِ دق کے عالمی یوم کا مضمون واقعی خصوصی مضمون تھا۔ 23 مارچ کی مناسبت سے ’’ہم متحد کیوں نہیں؟‘‘ شان دار سروے تھا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل جاذبِ نظر تھی۔ عرفان جاوید کے سلسلے ’’آدمی‘‘ کا جواب نہیں۔’’کہی اَن کہی‘‘ میں لیاقت علی خان کے پڑپوتے، باصلاحیت اداکار اور وائس اوور آرٹسٹ، معظم علی خان سے ملاقات بڑی دل چسپ رہی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا افسانہ ’’چراغ‘‘ سیدھا دل میں اُتر گیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’امرتسر سے لاہور‘‘ اور ’’قائدِ اعظم زندہ باد‘‘ کے عنوانات سے شان دار واقعات شامل کیے گئے۔ آپ نے میرے خط کے جواب میں فرمایا کہ میرے خطوط تاخیر سے ملتے ہیں، تو عرض ہے کہ پہلے سٹی پوسٹ آفس گھر کے قریب تھا، مگر اب خط پوسٹ کرنے کے لیے بڑا پینڈا کرنا پڑتا ہے۔ منور راجپوت نے جانورں سے پھیلنے والی بیماری لمپی وبا پر جامع رپورٹ تیار کی۔ ’’دل کابائی پاس ہوچکا، اب صرف دماغ کی سُنتا ہوں‘‘ لیجنڈ انور مقصود کی ’’گفتگو‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اور دونوں جریدوں میں ناچیز کے خطوط شامل تھے، بے حد شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ خود دیکھ لیں، آپ کا یہ خط بھی کتنی تاخیر سے ملا ہے۔ لوگ اپریل، مئی کے شماروں پر تبصرے کررہے ہیں اور آپ مارچ کی باتیں لیے بیٹھے ہیں۔

گنگ ہو کر کاغذ کو تکتے ہیں

نوکِ قلم سے سینۂ قرطاس پر خامہ فرمائی کر رہی ہوں، مگر یہ الفاظ جب تک قلم تک آتے ہیں ،گنگ ہو کر کاغذ کو تکتے ہیں اور اپنی آواز کھو بیٹھتے ہیں، لیکن یہ سوچ کر کہ زندگی جہدِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں، ایک بھر پور کوشش کی ہے، تو آتے ہیں میگزین کی طرف۔ میگزین کی تو خوش بو ہی مَن کے سارے دریچے کھول دیتی ہے، بلکہ اس کو دیکھ کر تو دل کے تار زور زور سے بجنے لگتے ہیں۔ صفحۂ اوّل پر نظر پڑی، تو ماڈل بہت دل کش انداز میں میرے فیوریٹ رنگ میں براجمان تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں حسبِ روایت منورمرزا چھائے نظر آئے۔ وہ پوری دنیا کی داستان بہترین انداز میں لے کر آتے ہیں۔ ڈاکٹر پیرزادہ نے تپِ دق پر قلم کشائی کی، تو معلومات افزا تحریر دل میں گھر کرگئی۔ روحی معروف کی تحریر سے بھی مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ شفق رفیع ہمیشہ کچھ نیا ہی لاتی ہیں۔ سروے بہت عمدہ رہا۔ سینٹر اسپریڈ پر نظر پڑی تو دل سے آواز آئی؎آج تو اُس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا… اُس کے جاتے ہی نظر مَیں نے اُتاری اُس کی۔ عرفان جاوید کی تحریر ’’آدمی‘‘ بڑے دل چسپ انداز میں لکھی گئی ہے۔ تحریر کے ساتھ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ہم۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ پُراثر ہے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں معظم علی خان موجود تھے، یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنی پہچان خود بنائی۔ ہمیں تو میگزین ہی کے توسّط سے پتا چلا کہ وہ لیاقت علی خان کے پڑ پوتے ہیں۔ ڈائجسٹ میں احمد حسن رانجھاکی منفرد تحریراور دل نشین اندازِ بیان کا اعجاز ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرگیا کہ اگر ایک شخص صرف ایک درخت بھی لگادے، تو مُلک کیسے جنّت نظیر بن سکتا ہے۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی بہترین تھے۔ اور محبّتوں کے طلسم کدے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی توکیا ہی بات ہے۔ (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال، کراچی)

ج: آپ کے الفاظ بھلا کہاں گنگ ہوکر کاغذ کو تکتے ہیں۔ آپ کی تو وہ مثال ہے ؎ لفظ چھن جائیں، مگر تحریر ہو روشن جہاں… ہونٹ ہوں خاموش،لیکن گفتگو باقی رہے۔

                                   فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سردرد سے پھٹا جارہا تھا کہ مبشر نے13 فروری کا سنڈے میگزین آنے کی نوید سُنائی، تو مَیں نے جھٹ اُس پر قبضہ کرلیا اور بیٹھ گئی لے کر۔سر ورق کی حسینہ بڑی شان وشوکت سے براجمان، اھلاً وسھلاً مرحبا کہتی نظر آئی، تو ہم نے بھی شُکراً شُکراً کہتے ہوئے صفحہ پلٹا اور لیجیے سر کا درد تو یوں رفو چکر ہوا، جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ ڈاکٹر فیاض احمد کا ڈیپریشن سے متعلق معلوماتی مضمون پڑھنے کو ملا، یاسر خان بھی ماریہ شمعون کے انٹرویو کے ساتھ حاضر تھے، جو اوّل وآخر نوجوان نسل کی رہ نمائی کرتا اور انہیں جہدِ مسلسل کی طرف راغب کرتا نظر آیا، رہی بات منور مرزا کی تو وہ یوکرین جنگ سے ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کررہے تھے اور پھر محمّد احمد غزالی بھی شیخ ابوالحسن علی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں تحریر سے بزم مہکا گئے، بہت خُوب صُورت اندازِ تحریر اور مفید معلومات کے ساتھ، پھر راؤ محمّد شاہد اقبال بھی کرپٹو کرنسی سے متعلق اہم معلومات دے کے میگزین کو مزیّن کرگئے اور جہاں تک بات ہے پیارا گھر میں لکھی گئی ڈاکٹر ایس عزیز کی حفظانِ صحت سے متعلق تحریر کی، تو اُس میں مجھے مقصودِ بیا ں مفقود نظر آیا کہ تحریر مختصر نہیں، ازحد مختصر لگی، عرفان جاوید کا آدمی تو بزم کو مسلسل مہکائے جارہا ہے، اُن سے گزارش ہے کہ ’’ سفید کوے‘‘ جیسی مزید تحریروں سے مستفید کریں۔ فیاض صاحب کے پھلوں نے تومنہ میں رَس گھول دیا، پڑھتے ہوئے بھی پھلوں کی میٹھی خوش بُو آرہی تھی۔ ناقابلِ فراموش اور ڈائجسٹ وہ سلسلے ہیں، جو میگزین کے سنجیدہ ماحول میں تفریح کا تڑکا لگا کر دل ہلکا پھلکا کردیتے ہیں۔بھئی میگزین کی ہستی میں اصل رنگ تو پیارا صفحہ بھرتا ہے، جس میں کہیں شرلی جی تعریفوں کے پُل باندھتے نظر آتے ہیں، تو کہیں مسز خالدہ خان اپنے خاص میٹھے انداز میں مشورے دیتی نظر آتی ہیں، تو افضل شاہین کوئی نہ کوئی نئی خواہش کرتے ہیں۔ غرض کہ تمام خطوط اپنی مثال آپ اور صفحے کی آن بان شان ہیں۔رہی بات میری، تو ایڈیٹر صاحبہ! آپ کو بتانا تھا کہ مجھے آپ سے میری دلی انسیت ہے، لیکن آپ نے میرا کبھی ایک بار بھی اُس طرح استقبال نہیں کیا، جیسے دوسری لڑکیوں کا کرتی ہیں… پھر تو بس ایک ہی سوال ہے؟؟؟… مجھ سے کوئی ناراضی ہے کیا؟؟؟ (ایمن علی منصور، کراچی)

ج: ارے بھئی کیسی ناراضی۔ یہ صفحہ آپ ہی کا ہے اور اس میں ساری رونق بھی آپ ہی سے ہے۔ یوں آتی جاتی رہا کریں، ہمیں تو لڑکیوں بالیوں سے ڈیل کرنا ویسے ہی بہت اچھا لگتا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* کیا مَیں نیوز پیپر یا میگزین کے لیے اِسی ایڈریس پر کوئی مضمون بھیج سکتی ہوں؟ ( انعم بتول)

ج :اس ایڈریس پر صرف سنڈے میگزین کے لیے تحریریں بھیجی جاسکتی ہیں۔

* ہماری سوسائٹی میں جہاں ہر شعبۂ زندگی، خاص طور پر صحافت میں مَردوں کی اجارہ داری ہے، اُس میں آپ جیسی قابل اور بہادر خواتین کا ہونا اور پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ایک سنگِ میل ثابت ہوتا ہے۔ ہم جیسی بہت سی کنزر ویٹو بیک گراؤنڈ کی حامل خواتین کے لیے آپ امید اور روشنی کا دیا ہیں۔ ہم جو تھوڑا بہت لفظوں کا تانا بانا جوڑ کر کچھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جنگ گروپ جیسے بڑے ادارے کو بھیج دیتے ہیں، تو یقیناً ایک وجہ آپ کی ذات بھی ہے کہ ایک خاتون کا خاتون سے مخاطب ہونا قدرے آسان ہے۔ آپ کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کا بے حد شکریہ۔ ( فوزیہ ناہید سیال، لاہور)

* ہر ہفتے کا شمارہ کسی تحفۂ عظیم سے کم نہیں۔ ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر سے یونی ورسٹیز کے ریسرچ پراجیکٹس میں اضافے کا جان کر خوشی ہوئی۔ یقیناً تعلیم کی طرف عدم توجّہی ہماری تنزّلی کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہیلتھ ایںڈ فٹنس کے مضامین معلومات افزا ہوتے ہیں۔ پیارا گھر کے تمام مضامین اچھے لگے۔’’ ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سے لگتا ہے کہ آپ اس کے ذریعے تمام روٹھے ہوؤں کی اپنوں سے صلح کروا کر رہیں گی۔ منور مرزا اوورسیز پاکستانیوں کو سیاسی ایندھن نہ بننے کی تلقین کر رہے تھے، تو ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو بھی ذمّے داریوں کا احساس دِلا رہے تھے۔ منور راجپوت نے بہترین موضوع پر قلم آرائی کی۔ بلاشبہ، کرائے کا مکان اور وہ بھی اپنی پسند کا، تلاش کرنا ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور ہے۔ ( سعادت خان مندوخیل، ژوب، بلوچستان)

* مجھے ایک تحقیقی کام کے لیے جنگ، سنڈے میگزین کے کچھ پرانے ایڈیشنز درکار ہیں، کہاں سے مل سکتے ہیں؟ (بشریٰ اعجاز)

ج:جنگ اِی پیپر پر جاکر’’ گزشتہ شمارے‘‘ کے خانے میں کِلک کرکے مطلوبہ تاریخ کے میگزین کا مطالعہ اور متعلقہ صفحات ڈاؤن لوڈ کیے جاسکتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk