اسلام آباد (آئی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو لاپتا کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دارکس کو ٹھہرائیں؟ یا توبتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ وفاقی حکومت کو پرویز مشرف اور اسکے بعد کے تمام وزرائے اعظم کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ نوٹسز اور بیان حلفی کدھرہیں؟ حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو موجودہ اورسابقہ وزرائے داخلہ پیش ہونگے، وزرائے داخلہ کدھر ہیں؟ کیا یہ عدالت کے حکم پرعملدرآمد ہو رہا ہے؟ کیا یہ اچھا لگے گا کہ یہ عدالت چیف ایگزیکٹو کو سمن کرے؟جمعہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی عدم بازیابی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس عدالت نے اپنے گزشتہ آرڈر میں کیا لکھا تھا وہ پڑھ کر بتائیں، اس آرڈرمیں لکھا تھا کہ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرکے پیش کیا جائے، وہ کہاں ہیں؟ چیف جسٹس کے سوال پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے اور تحقیقاتی ایجنسیزبھی اپنی کوشش کررہی ہیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کو کمیٹیوں میں نہ پھنسائیں، یہ بتائیں عملدرآمد ہوا ہے یا نہیں؟ وفاقی حکومت کا ایکشن کدھرہے؟ اب بھی روزانہ لوگ اٹھائے جارہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، وفاقی حکومت کو پرویز مشرف اور اسکے بعد کے تمام وزرائے اعظم کو نوٹسزجاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ نوٹسز اور بیان حلفی کدھرہیں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ ہے اور اس میں ریاست کا یہ رویہ ہے، کیا وفاقی حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس ہوئے ہیں؟ عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکم پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو موجودہ اور سابقہ وزرائے داخلہ پیش ہونگے، وزرائے داخلہ کدھرہیں؟کیا یہ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہو رہا ہے؟ کیا یہ اچھا لگے گا کہ یہ عدالت چیف ایگزیکٹو کو سمن کرے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ تمام حکومتیں آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہی ہیں، یہ معاملہ وفاقی حکومت اور تمام سیاسی قیادت کیلئے ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کرینگے کہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے کیا کوششیں کی جارہی ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مقف پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے کوئی کوششیں نہیں کی جا رہیں، عدالت نے حکم دیا تھا کہ مسنگ پرسنزکی مشکلات عوام تک پہنچانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے، گو کہ ناہونے کے برابرہے لیکن کوئی اقدام تواٹھایا گیا، ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دارکس کو ٹھہرائیں؟ یا توبتا دیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، پولیس، آئی بی اور آرمڈ فورسز کی ایجنسیز پر بھی الزام لگایا جاتا ہے، جتنے بھی کیسز ہیں ان میں کسی ایک کا بھی بتادیں کہ اسے کس نے اٹھایا ہے؟عدالت نے کہا کہ وزیردفاع کس کے ماتحت ہے؟ یا تووزیراعظم کہہ دے کہ وہ بے بس ہیں، اگر وزیراعظم بے بس نہیں ہے تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔