• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو قتل تحقیقات میں دلچسپی نہیں لی، راؤ انوار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق ایس ایس پی ملیر کراچی راؤ انوار نے بینظیر قتل کیس میں پرویز مشرف کو بری الذمہ قرار دیدیا،ساتھ ہی انہوں نے بینظیر بھٹو قتل کیس اور سانحہ کارساز کی تحقیقات میں پیپلز پارٹی کے کردار بھی سوال اٹھادیا۔ 

جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے راؤا نوار نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں پرویز مشرف کا کوئی کردار نہیں تھا، پرویز مشرف پر تو خود طالبان اور القاعدہ حملے کرتے رہے وہ کیوں طالبان سے ملے گا، پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔

نقیب اللہ محسود کو نہیں مارا نہ ایسا کوئی الزام ہے،سانحہ کارساز میں اکرام محسود کو نہیں پکڑا گیا حالانکہ پانچ سال مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی، سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ منافق آدمی تھا، میں نے خواجہ اظہار کو پکڑا تو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پانچ منٹ میں مجھے ہٹادیا۔

2007ء میں مخدوم امین فہیم اور سینیٹر انور بیگ کے کہنے پر بانی متحدہ کیخلاف مواد عمران خان کو دیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کا سوفیصد بانی متحدہ سے تعلق ہوگا، نثار مورائی کی جے آئی ٹی میں مرتضیٰ وہاب اپنے ہاتھوں سے چیزیں کاٹیں۔ 

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر کراچی راؤ انوار نے کہا کہ میں نے نقیب اللہ محسود کو نہیں مارا نہ ایسا کوئی الزام ہے، مجھے جب پتا چلا کہ وہاں ان کاؤنٹر ہورہا ہے تو میں خود وہاں پہنچا، میں اس جگہ پر پہنچا تو اس وقت تک ان کاؤنٹر ختم ہوچکا تھا، ایس ایچ او نے مجھے جو میسج کیا وہ میں نے آئی جی، ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی کو فارورڈ کردیا، ہم نے کراچی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ختم کیں۔ 

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود دہشتگرد تھا اس کی ہمارے پاس بہت سی چیزیں تھیں، نقیب اللہ محسود 2014ء میں گڈاپ اور سچل پولیس اسٹیشن کی ایف آئی آرز میں نامزد تھا۔

نقیب اللہ محسود کا اصل نام نسیم اللہ ولد محمد خان تھا جس کی لاش آئی ڈی کارڈ دیکھ کر ورثاء کے حوالے کی گئی تھی، کسی کے پاس نقیب اللہ ولد محمد خان کا شناختی کارڈ ہے تو سامنے لائے، نقیب اللہ محسود کا ایک ساتھی قاری احسان بھی پکڑا گیا جوآج تک جیل میں ہے، نقیب اللہ کی سوشل میڈیا پر تصاویر ایڈٹ شدہ ہیں، 2016ء میں نسیم اللہ عرف نقیب اللہ محسود کو اشتہاری قراردیا گیا تھا۔ 

راؤ انوار نے کہا کہ نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کیا انہیں جواب دینا تھا، نقیب اللہ محسود کیس میں ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنانا چاہئے تھا، اے ڈی خواجہ نے اپنی مرضی سے ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی کو منتخب کیا جو خود ایسی چیزیں کرتا رہا ہے۔

ثناء اللہ عباسی نے مجھے دو دفعہ اپنے ذاتی کام کہے جو میں نے نہیں کیے جس کا اس نے مجھ پر غصہ نکالا، ایک دفعہ انہیں اپنی ڈاکٹر بیوی کے اسپتال کیلئے مفت میں زمین چاہئے تھی جبکہ دوسری دفعہ اپنے بھائی کے بارہ پلاٹس پر نمبر لگوانے تھے، میں نے دونوں دفعہ ان سے معذرت کرلی تھی۔ 

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ کیس میں ازخود نوٹس منظور پشتین کی درخواست پر لیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی اے ڈی خواجہ کو ایکسٹینشن دی ہوئی تھی کہ انہیں کوئی نہیں ہٹائے گا، میرے خلاف ایف آئی آر کٹ گئی تھی ثاقب نثار نے کس چیز پر ازخود وٹس لیا، چیف جسٹس ثاقب نثار ہر معاملہ میں چیمپئن بنتے تھے، آئی جی سندھ نقیب اللہ محسود کے والد کو زبردستی گاؤں سے لائے۔ 

حلف اٹھا کر کہتا ہوں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے مجھے کہا کہ کچھ آدمی دیں گے آپ انہیں مار کر پھینک دیا کریں مگر میں نے منع کردیا، میں نے آج تک کسی کو مار کر ڈیڈ باڈی نہیں پھینکی، ایم کیو ایم کے میرے صرف دو ان کاؤنٹر 1995ء میں تھے، ایک ان کاؤنٹر میں بڑا دہشتگرد فاروق دادا مارا گیا۔ 

راؤ انوار نے کہا کہ مجھے پروموشن سینیارٹی کی وجہ سے ملا ہے، میں نے ملیر کے علاقے میں لیاری گینگ وار کے لوگوں کو بھی پکڑا،بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے خالد قریشی نے مجھے کہا کہ ہمیں بلیک بیری فون ابھی تک نہیں ملے آپ زرداری صاحب سے پتا کریں، آصف زرداری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بلیک بیری فون رحمٰن ملک کے پاس ہیں میں انہیں کہہ دیتا ہوں وہ آپ کو فون دیدیں گے۔

اس کے بعد رحمٰن ملک نے مجھے کہا کہ اس کیس میں کوئی بھی بات ہو مجھ سے کریں صدر صاحب کے پاس کیوں گئے، ڈی آئی جی نے مجھے کہا کہ انہیں بلیک بیری فون مل گئے ہیں۔ راؤ انوار کا کہنا تھا کہ بینظیر کیس میں دو پولیس افسران کیخلاف کارروائی ان سے زیادتی تھی۔

اہم خبریں سے مزید