• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’BAP‘‘ کے انٹرا پارٹی انتخابات کی اندرونی کہانی

بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات طویل عرصے کے بعد بلاآخر ہوگئے ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو پارٹی کے مرکزی صدر ، سینیٹر منظور احمد کاکڑ سیکرٹری جنرل جبکہ سنیئر صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی صوبائی صدر اور سنیئر صوبائی وزیر نور محمد دومڑ جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے، یہ تمام عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے، یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی اس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کئی بار انتخابات کے لئے مزید مہلت ملنے کے باوجود انٹرا پارٹئی انتخابات کرانے میں ناکام رہی تھی۔ 

ایک جانب پارٹی رہنما 2018 میں پارٹی کے قیام اور عہدیداروں کے انتخاب کے بعد 2022 میں جہاں انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن بظاہر پارٹی عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے کیونکہ پارٹی کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نہ صرف پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے موقع پر ہی ان انتخابات کو نہ صرف مسترد کرچکے تھے بلکہ پارٹی کے انتخابات 9 اگست کو کرانے کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں ،ساتھ ہی سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے موقف اختیار کیا تھاکہ پارٹی صدر پارٹی کا آئینی سربراہ اور پارٹی کے آئین و دستور پر عمل درآمد کرانے کا پابند ہوتا ہے اور پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے مگر مجھے بحیثیت پارٹی صدر جنرل کونسل کے اجلاس کے حوالے سے نہ تو کسی نے اعتماد میں لیا نہ کسی نے کوئی مشاورت کی ہے مذکورہ اجلاس غیرآئینی و غیرقانونی ہے جس کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں ، پارٹی کے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلوچستان اسمبلی کے بجٹ سیشن کے بعد ہوگا جس میں پارٹی آئین کے مطابق پارٹی کے انتخابات کو حتمی شکل دی جائے گی نہ صرف انہوں نے جنرل کونسل کے ارکان کو ہدایت کی بھی کی تھی کہ وہ 19 جون کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کریں بلکہ9 اگست کو پارٹی کے ہر رکن کے انتخابات میں حصہ لینے اور جمہوری عمل کے زریعے نمائندگی کے حصول کیلئے آپشنز کھلے ہیں۔ 

سابق وزیر اعلیٰ کے پارٹی کے جنرل کونسل کے اجلاس اور پارٹی انتخابات سے کئی روز قبل آنے والے موقف کے باوجود چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی ، قائم مقام گورنر بلوچستان و اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی جن کے پاس پارٹی کے چیف آرگنائزر کا عہدہ بھی تھا سمیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں ، ارکان قومی اسمبلی ، صوبائی وزرا اور ارکان بلوچستان اسمبلی نے بڑی تعداد نے جنرل کونسل کے اجلاس اور پارٹی انتخابات میں حصہ لیکر اگلی مدت کے لئے عہدیدار بھی منتخب کرلئے ، جس کے بعد اس بات کے اشارئے مل رہے ہیں کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت پارٹی کا کوئی الگ دھڑا بھی سامنے آجائے گا۔ 

یار رہے کہ پارٹی کے دستور کے مطابق پارٹی کے انٹر اپارٹی انتخابات تین سال میں کرانا ضروری ہیں ،جو مقررہ مدت گزرنے اور الیکشن کمیشن سے دو مرتبہ مہلت ملنے کے باوجود نہ ہونے پرالیکشن کمیشن نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو 18جنوری 2022 کو طلب بھی کیا تھا تاہم اس کے باوجود پارٹی انتخابات نہیں ہوپائے تھے بلکہ گزشتہ سال اکتوبر میں میر عبدالقدوس بزنجو اور پارٹی کے دیگر ارکان صوبائی اسمبلی کی جانب سے اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے اور اسے کامیاب بنانے کے بعد پارٹی کے دونوں بڑئے رہنماوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئی تھیں جن میں کمی کی بجائے اس وقت اضافہ ہوا جب سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ان کے حامی ارکان بلوچستان اسمبلی کی جانب سے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی یاد رہے کہ یہ اب تک بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی وزیراعلیٰ کے خلاف لائی جانے والی پہلی تحریک عدم اعتماد تھی جو ناکام ہوئی اس سے قبل لائی جانے والی تین تحاریک التوا پر ووٹنگ سے قبل ہی وزرا اعلیٰ ماضی میں مستعفی ہوگئے تھے۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد تو پارٹی کے ان دونوں بڑئے رہنماوں یعنی موجودہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر چلے گئے ہیں کیونکہ ان انتخابات اور سابق وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل بھی دونوں رہنماوں کے درمیان دوریاں کم نہیں ہوئی تھیں ، بلوچستان میں 2018 سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی جس کا قیام بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں ہی حل کرنے کے نعرئے کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا روز اول سے اپنے اندرونی مسائل سے لڑتی آرہی ہے ، پارٹی رہنماوں کے درمیان دوریاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ گزشتہ تین چار سال کے دوران مختلف مواقع پر یہ دوریاں نظر آئیں جن کو سیاسی سطح پر محسوس کیا جاتا رہا۔ 

پارٹی میں سینئر رہنماوں کی موجودگی میں پہلے جام کمال خان اور پھر میرعبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ 2018 کے انتخابات کے بعد میرعبدالقدوس بزنجو اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے سے قبل عہدئے سے مستعفی ہوگئے، پارٹی کے دونوں بڑئے رہنماوں سمیت پارٹی دیگر رہنماوں کے درمیان جب بھی ایسی دوریاں پیدا اور اختلاف رائے سامنے آیا تو سیاسی حلقوں میں یہ بات زیر بحث آتی کہ پارٹی کے بزرگ رہنماوں کا کردار سامنے آئے گا خاص طور پر قائم مقام گورنر و اسپیکر اور پارٹی کے چیف آرگنائزر میر جان محمد جمالی اور پارٹی کے بانی سینیٹر سعید احمد ہاشمی پارٹی معاملات سنبھال لیں گے لیکن بظاہر ایسا نہ ہوسکا ، اب جبکہ آئندہ عام انتخابات بھی زیادہ دور نہیں تو ایسے میں اگر پارٹی رہنماوں میں دوریاں ختم نہ ہوئیں تو پارٹی کے لئے 2018 کے انتخابی نتائج حاصل کرنا آسان نہ ہوگا ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید