• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت کےسیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’کپتان‘‘ دور کے تین سابق وفاقی وزراء کی ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ سرگرمیوں کے حوالہ سے کئی چہ میگوئیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ تینوں سابق وزراء ’’مقتدر حلقوں‘‘ کو بھی اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اور سیاسی پارٹیاں بدلنے کی شہرت رکھنے والے سابق وفاقی وزیر تو اپنے دیرینہ دوستوں کے ذریعے حکومتی اتحاد کی بڑی پارٹیوں کے کئی رہنماؤں سے رابطوں میں ہیں؟

کے پی کے میں سابق وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر رہنے والے سابق وفاقی وزیر کے بارے میں زبان زد عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ’’بیک ڈور‘‘ معاملات کو چلا رہے ہیں۔ عسکری پس منظر رکھنے والے تیسرے سابق وفاقی وزیر بھی اپنی پرانی دوستیوں کے ذریعے ’’کپتان‘‘ کو اپنا اثرورسوخ دکھا رہے ہیں۔ مذکورہ تینوں سابق وفاقی وزراء پارٹی کے سربراہ کو اپنی مہارت کے کرتب دکھا رہے ہیں ؟

آئی بی کے سربراہ کی تعیناتی کی کہانی

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں اینٹیلی جینس بیورو کے سربراہ کی مستقل تعیناتی سے قبل پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنے کے حوالہ سے کئی کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ اعلیٰ افسر کی قائم مقام تعیناتی کے بعد اس عہدہ کی دوڑ میں شامل اعلیٰ پولیس افسران نے ان کے بارے میں حکومت کے اعلیٰ حکام کو بعض خدشات سے آگاہ کیا تھا ۔

آئی بی کے سربراہ کی ’’قائم مقام تقرری ‘‘ کے احکامات کے پس منظر میں شریف برادران کے گزشتہ دور حکومت کے ڈی جی آئی بی کی سفارش شامل تھی اور انہوں نے ہی ان کا نام تجویز کیا تھا۔ مستقل تقرری سے قبل آئی بی کے کئی سابق اعلیٰ افسران نے کچھ ایسی معلومات فراہم کی تھیں کہ جن سے محسوس ہو رہا تھا کہ مستقل تقرری کا پروانہ جاری نہیں ہوگا لیکن بعدازاں ’’مقتدر ادارے‘‘ کے ایک اعلیٰ عہدہ کے افسر کی ’’گارنٹی ‘‘ پر مستقل تعیناتی کے احکامات جاری کئے گئے ؟

’’چیف سیکرٹری اور آئی جی کیخلاف سازش‘‘

٭صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی ’’سازش‘‘ کی ناکامی کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق حکومت کے دو سابق وفاقی وزراء اس ’’سازشی کھیل ‘‘ میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مذکورہ کرداروں نے ’’درپردہ قوتوں‘‘ کو ان دونوں اعلیٰ افسران کے بارے میں بعض الزامات پر مبنی شکایات سے آگاہ کیا تھا ۔

’’مقتدر ادارے ‘‘ کے ایک اعلیٰ افسر نے جب مذکورہ الزامات کے ثبوت طلب کئے تو سابق حکومت کی افسر شاہی کی تحقیقات کرنے والے ’’خصوصی سیل‘‘ کے ممبران کوئی بھی ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مذکورہ دونوں اعلیٰ افسران نے ’’مقتدر حلقوں‘‘ کو یہ جواب دیا تھا کہ وہ وفاق میں بھی خدمات بجا لانے کو تیار ہیں ۔ مذکورہ سازش کی ناکامی میں ان کی ’’اچھی شہرت‘‘کے ریکارڈ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ؟

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید