لندن ( پی اے ) ایک نئی سٹڈی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹائیفائیڈ کا سبب بننے والا بیکٹریا تیزی کے ساتھ اینٹی بائیوٹک ریزسٹنٹ بن چکا ہے اور تین دہائیوں میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے۔ سالمونیلا انٹریکا سیروور ٹائفی (S.Typhi) کے جینوم کے سب سے بڑے تجزیے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تقریباً سب ہی ریزسٹنٹ سٹرین سائوتھ ایشیا میں پیدا ہوتے ہیں - 1990سے اب تک تقریباً 200مرتبہ دوسرے ملکوں میں پھیل چکے ہیں سٹڈی کے نتائج میں بتایا گیا ہے ک سائوتھ ایشیا میں اینٹی بائیوٹک ریزسٹنٹ کام طور پر کم ہوئی ہے ۔ میکرولائیڈز اور کوئنولونز کے خلاف سٹرینز ریزسٹنٹ جو انسانی صحت کیلئے دو سب سے اہم اینٹی بایوٹک ہیں تیزی کے ساتھ بڑھے ہیں اور دوسرے ملکوں میں پھیل چکے ہیں ۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر جیسن اینڈریوز نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ایس ٹائفی ( S.Typhi ) کے انتہائی ریزسٹنٹ سٹرینز جس تیزی کے ساتھ ابھرے اور پھیلے ہیں تو یہ صورتحال در حقیقت بہت تشویش ناک ہے ۔ یہ خاص طور پر زیادہ خطرے سے دوچار ملکوں اور علاقوں کیلئے بچائو کے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجگر کرتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کے کنٹرول اور اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس کو عام طورپر مقامی مسئلے کے بجائے عالمی مسئلے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ٹائیفائیڈ بخار ہر سال 11ملین انفیکشن اور 100000اموات کا سبب بنتا ہے۔ اور یہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پھیلتا ہے ۔ اور یہ اس بیماری کے عالمی بوچھ کا 70فیصد بوجھ ہے ۔ یہ بیماری سب صحارا افریقہ ‘ سائوتھ ایسٹ ایشا اور اوشیانا میں بھی ایک مسئلہ ہے جو اس حوالے سے گلوبل رسپانس کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ٹائیفائیں کے کامیابی سے علاج کرنے کیلئے اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جا سکتی ہیں لیکن ریزسٹنٹ سٹرینز کی وجہ سے ان کی اثر پذیری کو خطرہ لاحق ہے۔ نئی سٹڈی کے مصنفین نے 2014اور 2019کے درمیان بنگلہ دیش ‘ بھارت ‘ نیپال اور پاکستان میں لوگوں میں ٹائیفائیڈ بخار کے مصدقہ کیسز کے ساتھ جمع کیے گئے خون کے نمونوں سے3489ٹائیفائیڈ سٹرینز پر مکمل جینوم سیکوئنسنگ کی گئی 1905اور 2018کے درمیان 70ملکوں کے اضافی 4169نمونوں کو بھی الگ کر کے ان کی سیکوئنسنگ کی گئی تھی اور انہیں بھی تجزیے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس بڑی سٹڈی میں معلوم ہوا کہ 1990کے بعد ریزسٹنٹ ایس ٹائفی (S.Typhi) کم از کم 197ملکوں کے درمیان پھیل چکا ہے۔ جب کہ یہ ریزسٹنٹ عموماً سائوتھ ایشیا کے اندر اور سائوتھ ایشیا سے سائوتھ ایسٹ ایشیا‘ ایسٹ اور سائوتھ افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے کیسز برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔ ریسرچ کے مطابق جین میوٹیشنز کوئنولونز کو ریزسٹنس فراہم کرتے ہیں اور اس میں اضافہ ہوا ہے اور 1990کے بعد یہ 94مرتبہ پھیلا ہے ۔ ریسرچ کے مطابق تقریباً تمام میں سے 97فیصد سائوتھ ایشیا میں ابھرے ہیں ۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ کوئنولونز ریزسٹنٹ سٹرین بنگلہ دیش میں 2000کی دہائی کے اوائل تک ایس ٹائفی کے 85فیصد سے زیادہ کیسز تھے جو 2010تک بھارت، پاکستان ‘ اور نیپال میں 95 فیصد تک ہو گئے تھے۔ ایزتھرومائی سین کے خلاف ریزسٹنس فراہم کرنے والے میوٹیشنز جو بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی مائیکرولائیڈ اینٹی بائیوٹک ہے گزشتہ 20برسوں میں کم از کم سات بار سامنے ائے ہیں ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ کے نتائج تھرڈ جنریشن کے سیفالوسپورنز کے خلاف ریزسٹنٹ سٹرین کے تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے کے بارے میں حالیہ شواہد میں اضافہ کرتے ہیں اس لیے اینٹی بائیوٹکس کی ایک اور کلاس انسانی صحت کیلئے انتہائی اہم ہے اس ریسرچ کے نتائج دی لینسٹ مائیکروب جرنل میں شائع ہوئے ہیں۔