ملک کے سب سے بڑے صوبے میں قائم ہونیوالی نوزائیدہ حکومت تاحال مکمل طور پر منظم اور فعال نہیں ہو سکی۔ گورنر پنجاب کی تقرری اور کابینہ کی حلف برداری سے حکومت سازی کس حد تک مکمل ہوئی ہے اور صوبے میں جاری آئینی بحران میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے تاہم مہنگائی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ میں پھنسے پریشان حال شہریوں کو تاحال کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ نامکمل، غیرمنظم اور غیر فعال پنجاب کابینہ کے باعث نئی حکومت بہتر انداز میں ڈلیور نہیں کر پا رہی۔ جس سے ناصرف شہریوں میں بے چینی و غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں کو اس کا سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کے لئے پنجاب کا ضمنی انتخاب نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے جو پنجاب میں ’’گیم چینجر‘‘ حکومتی تبدیلی بھی ثابت ہو سکتا ہے، اگرچہ کہ بہت سے اشاروں اور صورتحال کے پیش نظر حکومت تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں مگر اس کے باوجود (ن) لیگ پر ضمنی انتخابات میں شکست کی صورت حکومت ختم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ضمنی انتخاب مسلم لیگ (ن) کے لئے تو اہمیت کا حامل ہے ہی تاہم حمزہ شہباز شریف جو پہلی بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں ان کی قائدانہ اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیتوں کا بھی کڑا امتحان ہے۔
پنجاب میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کے پاس اتحادیوں کی ملا کر کل 177 نشستیں ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس168نشستیں ہیں جس میں اگر 5 مخصوص نشستیں بھی اپوزیشن کو دے دی جائیں تو ان کی ایوان میں تعداد 173 بنتی ہے۔ 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہونا ہے جبکہ اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لئے 186 نشستیں درکار ہیں۔
حکمران اتحاد کو ایوان میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے 12نشستیں درکار ہیں جس کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے لئے حکومتی اور اپوزیشن دونوں جماعتوں نے انتخابی سرگرمیاں تیز کر رکھی ہیں تاہم کچھ چیزیں حکمران اتحاد کی حمایت میں ہیں۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) انتخابی سیاست کو بخوبی سمجھتی ہے اورماضی میں الیکشن مینج (Manage) کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔
وفاق اور پنجاب میں حکومت میں ہونے کا فائدہ بھی بلاشبہ (ن) لیگ کو حاصل ہے، بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تقرروتبادلوں کے بعد منظور نظر افسران کو بھی حکمران جماعت من پسند عہدوں پر تعینات کروا چکی ہے یہ تمام تر صورتحال بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں بہتر پوزیشن دلوانے میں کردار ادا کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر مقتدر حلقوں اور ’’نیوٹرلز‘‘ کی بات کی جائے تو وہ بھی موجودہ صورتحال میں اتحادی حکومت اور اس کے تسلسل کی حمایت میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب دیکھیں تو ’’لوٹوں‘‘ کا خطاب پانے والے منحرف اراکین حکومتی اتحاد کے امیدوار ہیں اگرچہ کہ منحرف اراکین اپنا ذاتی ووٹ بنک بھی رکھتے ہیں اس کے باوجود بھی منحرف ہونا ان کے انتخابات پر منفی اثرات بھی مرتب کر سکتا ہے۔
حکومتی اتحادی جماعتیں ضمنی انتخابات میں حکومت کا کس حد تک ساتھ دیتی ہیں اور اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار یا منحرف اراکین جو اب اتحادی جماعتوں کے امیدوار ہیں کو سپورٹ کرنے کے لئے کتنا منظم اور فعال کرتی ہیں یہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان تمام تجزیوں اور امکانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیکھیں تو مہنگائی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافے، ڈالر کی تاریخی پرواز اور سٹاک مارکیٹ کا کریش سمیت خراب معاشی صورتحال مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان اور ڈس کریڈٹ ہے۔
پنجاب کابینہ کے مکمل فعال نہ ہونے اور وزراء کو محکمہ جات الاٹ نہ کئے جانے کا نقصان بھی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ کابینہ کے فعال نہ ہونے اور وزراء کو محکمہ نہ ملنے سے بھی حکومت کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور پنجاب کے مختلف محکمے اپنی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے، یہ محکمے میں بحرانی کیفیت ہے اور عوام کو ریلیف نہیں مل پا رہا۔ دوسری جانب دیکھیں تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے انتخابی حلقوں میں ورکرز کنونشن اور جلسوں نے نہ صرف انتخابی ماحول گرما دیا ہے بلکہ (ن) لیگ کے گڑھ میں شارٹ نوٹس پر کنونشن نے ورکرز کو کسی قدر سرگرم بھی کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کے پاس امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اور بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کا نعرہ بھی ہے جس سے وہ نہ صرف تحریک انصاف کے ورکرز بلکہ عام شہریوں میں غم و غصہ کو کیش کروا کر اپنی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے چیئرمین موجودہ نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کی موجودہ احتجاجی سیاست کا تمام تر محور و مرکز اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل اور عام انتخابات پر ہے۔
یہ وجہ بھی ہے کہ تحریک کا ورکر اور ووٹرز ضمنی اتنخابات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا، جبکہ تحریک انصاف کی جیت کی صورت میں وزارت اعلیٰ کا منصب بھی (ق) لیگ کے پرویز الٰہی کو ملنے کا قوی امکان ہے۔ تحریک انصاف کی اہم اتحادی جماعت (ق) لیگ کی جانب دیکھا جائے تو وہ بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کا شکار ہے جو اس وقت کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ اس لئے اس کا بھی ضمنی انتحابات میں تحریک انصاف کے لئے کھل کر کام کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔