• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

2017ء میں ایک نجی چینل سے ڈراما ’’مجھے جینے دو‘‘ نشر ہوا،جس کی کاسٹ میں کئی معروف اداکاروں کے ساتھ سپورٹنگ کردار نبھانے والا ایک نیا چہرہ بھی شامل تھا۔ جب یہ ڈراما آن ائیر ہوا، تو اُس نوجوان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چار سال بعد اس کا شمار شوبز انڈسٹری کے درخشاں ستاروں میں ہوگا۔ حالاں کہ جب وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کرکراچی منتقل ہوا، تو اُسے ڈرامےکی کاسٹ ہی سے الگ کردیا گیا۔ چھے ماہ مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے چکر لگائے، مگر ہمّت نہ ہاری۔ 

بالآخر قسمت مہربان ہوئی، تو ڈراما ’’سانوری‘‘ میں تبریز کا مرکزی کردار مل گیا، ،جس پر بعدازاں ’’بیسٹ سوپ ایکٹر‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ بہرکیف، یہی ڈراما اس نوجوان کے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ڈرامے ملتے ہی چلے گئے۔ جی یہ ذکر ہے، اسامہ خان کا، جنہیں آپ آج کل کئی اچھے سیریلز میں پرفارم کرتا دیکھ رہے ہیں۔

اسامہ کے معروف ڈراموں میں استانی جی، سانوری، گوری کی دکان، حقیقت، مَیں خواب بُنتی ہوں، بساطِ دِل، تمنّا، غلطی، بے زبان، دکھاوا، اُڑان، عشق جلیبی، ستم، مہلت، نُور، چھلاوا، پاکیزہ پھپھو، میرے اپنے اور دوبارہ شامل ہیں، جب کہ ایک ڈراما’’ایک ستم اور‘‘ اِن دِنوں آن ائیرہے۔

گزشتہ دِنوں ہم نے اپنے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے اسامہ خان سے کچھ ہلکی پھلکی سی بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے آبائی گھر، خاندان، والدین کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا آبائی گھر گوجرانوالہ میں ہے۔ ہم چار بہن بھائی ہیں۔ سب سےبڑی بہن ہیں۔پھر دوسرے نمبر پر بھائی، تیسرے پر بہن اور چوتھے پر مَیں گھر بَھر کا لاڈلا ہوں۔ امّی کا نام سکینہ اور ابّو کا اعظم خان ہے۔ گوجرانوالہ میں ہمارا اسکول ہے، جس کے گزشتہ 35 برس سے تمام تر انتظامی معاملات امّی ، ابّو دیکھ رہے ہیں۔ میری ایک بہن بھی ان کا ہاتھ بٹا رہی ہیں،جب کہ دوسری بہن کراچی میں رہایش پذیر ہے۔ ہماری فیملی بہت سپورٹڈ ہے۔ امّی اور ابّو نے ہم سب سے دوستی کا تعلق رکھا ، مگرتعلیم و تربیت کے معاملے میں کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔

س: کس شہر میں پیدا ہوئے، کہاں سے تعلیمی مدارج طے کیے اور تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

ج: مَیں گوجرانوالہ میں 22نومبر 1991ء کو پیدا ہوا۔ کانونٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اے سی سی اے کیا۔پھر گوجرانوالہ سے کیٹ مکمل کرنے کے بعد آڈٹ اینڈ ٹیکسیشن (Audit And Taxation) میں اسپیشلائزیشن کیا۔ بعد ازاں، لاہور کے ایک بینک میں ملازمت بھی کی۔

س: آپ کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے، تواس شہر میں جتنا وقت گزرا ، اُس حوالے سے بھی کچھ باتیں، یادیں شیئر کریں؟

ج: میرے سارے دوستوں کا تعلق گوجرانوالہ ہی سے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بچپن کی دوستیاں زیادہ پائیدار ہوتی ہیں کہ بڑے ہوکر ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ گو کہ اب میرا گوجرانوالہ جانا ذرا کم ہوگیا ہے، لیکن جب بھی جاتا ہوں، بہت اپنا ئیت محسوس ہوتی ہے۔ مَیں بچپن میں بالکل شرارتی نہیں تھا،مگر میرے سارے دوست بہت شرارتی تھے۔ مَیں خاصا شرمیلا ساتھا، مگراب کچھ شرارتی ہوگیا ہوں۔

س: کس فیملی ممبر کے زیادہ قریب ہیں؟

ج: مَیں امّی کے زیادہ قریب ہوں اور وہ بھی اپنے اسکول کےکئی معاملات، خاص طور پر اکاؤنٹس کے مجھ ہی سے ڈسکس کرتی ہیں۔ مَیں جب شُوٹ پر پہنچتا ہوں، تو سب سے پہلے امّی کو کال کرتا ہوں۔ اسی طرح سونے سے پہلے بھی اُن سے بات کرکے سوتا ہوں۔

س: تعلیم مکمل کی، تو 9سے 5 والی ملازمت کرلی، پھر یہ اداکاری کا شوق کیسے ہوا؟

ج: امّی کو میگزینز پڑھنے کا شوق ہے، تو اکثر وہ مجھے معروف شخصیات کے انٹرویوز پڑھ کر سُنایا کرتی تھیں، تو بس وہیں سے اداکار بننے کا شوق پیدا ہوا، مگر اس شوق کی تکمیل کئی مراحلے طے کرکے ہوئی۔ مطلب یہ کہ مَیں ملازمت کی وجہ سے لاہور منتقل ہوگیا تھا، جہاں ایک جِم جوائن کرلیا ۔یہ کوئی 2017ء کی بات ہے، جب جِم ہی میں میری ملاقات ڈائریکٹر انجلین ملک سے ہوئی۔ وہ اپنے ایک ڈرامے ’’مجھے جینے دو‘‘ کے لیے آڈیشنز لے رہی تھیں، تو بس، اُن کے ڈرامے میں مجھے سپورٹنگ کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔

س: شوبز کیرئیر کا آغاز سوپ سیریل سے کیا، پھر لیڈ رول کرنے لگے، تو ذرا اس پورے سفر سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: انجلین نے میرا کام اور لگن دیکھتے ہوئے مجھےکراچی کے دو چار ہدایت کاروں کے پاس ریفر کیا ،تو مَیں 2018ء میں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کراچی منتقل ہوگیا۔یہاں آیا، تو مجھے ایک ڈرامےمیں کاسٹ کرلیا گیا، لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ڈائریکٹر نے مجھے پراجیکٹ سے الگ کردیا۔ وقتی طور پر دُکھ ضرور ہوا، لیکن یہ یقین تھا کہ اللہ نے میرے لیے جو بھی پلان کیاہے، وہ سب سے بہتر ہوگا۔ 

چھے ماہ انتظار میں گزر گئے ۔اس پورےعرصے میں گاہے بگاہے میری ملاقات کامران اکبر سے ہوتی رہتی تھی۔ مَیں اکثر اُس چینل کے دفتر بھی چلا جاتا تھا، جہاں سے مجھے ریجیکٹ کردیا گیا تھا، لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود کام نہیں بن رہا تھا۔ پھر جس دِن واپسی کا ارادہ کیا، تو کامران اکبر کی کال آگئی۔ انہوں نےڈراما ’’سانوری‘‘ کے لیےمیرا نام تجویز کیا،جو بہرکیف میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کامران اکبر نہ ہوتے، تو مجھے کبھی اُس ڈرامے میں کام کا موقع نہ ملتا۔

ساجد حسن کے ساتھ شرارت کرتے ہوئے
ساجد حسن کے ساتھ شرارت کرتے ہوئے 

س: اس کے بعد انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے کیا کیا مشکلات برداشت کیں؟

ج: میرے قدم ابھی پورے طرح جمے کہاں ہیں (ہنستے ہوئے بولے) بس، کوشش کررہا ہوں کہ چمکتے دمکتے ستاروں میں اپنی پہچان بناسکوں۔ مَیں جب باقاعدہ طور پر انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو مجھے اس بات کا علم تھا کہ کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا کوئی آسان کام نہیں۔ پھر چوں کہ مَیں شرمیلا سا تھا، تو کُھل کر کام بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ بس، ایک ڈر سا لگا رہتا کہ ڈائریکٹر یہ نہ کہہ دے، وہ نہ کہہ دے۔

اس بات پر نہ ٹوک دے، ایسا نہ ہوجائے، ویسا نہ ہوجائے۔ مگر وقت واقعی بہترین استاد ہے،جس نے مجھے مشکلات سے نکلنا سکھایا۔ یہاں تک کہ چند سوپ سیریلز میں کام کے بعد مہرین جبار، وجاہت حسین اور دانش نواز کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ جب آپ کسی بڑے ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو نہ صرف صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے، بلکہ شخصیت میں بھی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اب الحمد للہ، متعدّد ڈراموں میں کام کررہا ہے۔

س: ڈراما’’دوبارہ‘‘ میں حدیقہ کیانی کے بیٹے عفّان کا کردار ادا کررہے ہیں، توجب یہ کردار آفر ہوا تو اندازہ تھا کہ اتنا مقبول ہوجائے گا؟

ج: جن دِنوں ڈراما سیریل’’دوبارہ‘‘ میں کام کی آفر ہوئی، تو شوٹنگ کے لیے تاریخ کا مسئلہ ہورہا تھا۔ بہرحال، دانش نواز نےمجھے اسکرپٹ بھیج کر کال کی اور کہا کہ’’اسامہ! اِسے پڑھ لو اور مجھے یقین ہے کہ تم ہاں کر دو گے۔‘‘اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ مَیں نے ایک ہی گھنٹے میں 10 اقساط پڑھ کر کام کی حامی بَھر لی ،کیوں کہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ڈراما اپنی منفرد کہانی کی وجہ سےبہت زیادہ ہٹ نہ بھی ہوا،مگر ٹھیک ٹھاک ریٹنگ لےگا۔

س: ڈراما ’’دوبارہ ‘‘میں مہرالنساء سے تھپڑ پڑا، تو کیا کبھی بچپن میں والدین سےبھی مارکھائی؟

ج: ابّو اگرچہ غصّے کے تیز ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں کبھی والدین سے مار نہیں کھائی،جب کہ مہرالنساء سے ایک نہیں، دو تین بار تھپڑ کھانے کے بعد سین اوکے ہوا۔ اس سین سے متعلق ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں حدیقہ کیانی افسوس کا اظہار کرکے معذرت کررہی تھیں۔ بہرحال، حدیقہ جی کے ساتھ کام کرکے بہت اچھا لگا۔ وہ بہت نفیس اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ ان کے پاس بیٹھو، توبہت اچھا لگتاہے کہ وہ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتیں۔

س: کسی ڈرامے کی آفر قبول کرتے ہوئے کیا دیکھتے ہیں، اسکرپٹ، کاسٹ یا پھر ہدایت کار؟

ج: آج سے کچھ عرصہ پہلے مَیں صرف ڈراما، کردار اور چینل دیکھتا تھا،مگر اب پہلے ڈائریکٹر، اسکرپٹ رائٹر اور پھر کردار دیکھتا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ خود پرکسی مخصوص کردار کی چھاپ لگنے نہ دوں۔

س: اگر اداکار نہ ہوتے تو…؟

ج: اگر اداکار نہ ہوتا، تو پھر اکاؤنٹنٹ ہوتا۔

س: اداکاری کا جنون کراچی لے آیا، تو یہاں کی تیز رفتار زندگی میں ایڈجسٹ ہوگئے ہیں یا…؟

ج: یہاں آکر پتا چلا کہ یہ شہر کس قدر پروفیشنل ہے۔ اب میں لوگوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ نے پیشہ ورانہ طور پر آگے بڑھنا ہے، تو کراچی آجائیں۔ یہاں کے مسائل اپنی جگہ، لیکن پورے پاکستان میں یہی ایک شہر پیشہ ورانہ اعتبار سے بہت آگے ہے۔ کراچی کی زندگی بہت تیز ہے اور جو اس کی رفتار کا ساتھ دیتا ہے، وہی کام یاب رہتا ہے۔ پھر یہاں رہنے والے لوگ اسی مشینی لائف اسٹائل کے عادی ہیں کہ کراچی میں کام کا مطلب ہے، صرف کام، کام اور کام۔

زینب شبیر اور اسامہ، خوش گوار موڈ میں
زینب شبیر اور اسامہ، خوش گوار موڈ میں

س: اب تک جو ڈرامے کیے، اُن میں اپنا کون سا کردار، رُوپ سب سے اچھا لگا؟

ج: مجھے ڈراما ’’عشق جلیبی‘‘، ’’مہلت‘‘، ’’دوبارہ‘‘ اور ’’ایک ستم اور‘‘ میں اپنے کردار اچھے لگے اوران چاروں ہی ڈراموں کا مجھے پرستاروں سے اچھا فیڈ بیک بھی ملا،جب کہ پروڈکشن ہائوس سے مجھے ’’دوبارہ‘‘ اور ’’عشق جلیبی‘‘ پراچھا ریسپانس ملا۔ اگرچہ ڈراما ’’سانوری‘‘نے میری زندگی کا رُخ بدل دیا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے اس ڈرامے میں کچھ خاص اچھی اداکاری نہیں کی تھی، بس قسمت ہی مہربان ہوگئی۔

س: ان دِنوں کیا مصروفیات ہیں، کس نئے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟

ج: چند پراجیکٹس پر کام کررہا ہوں، جن کے متعلق فی الحال نہیں بتا سکتا۔

س: آپ کے پرستار آپ کو بڑے پردے پر کب دیکھیں گے؟

ج: مجھے ایک دو فلمز کی آفرز آئیں، لیکن وہ بڑے پراجیکٹ نہیں تھے،سو معذرت کرلی۔ فی الحال، میری توجّہ ٹی وی اسکرین پر ہے، مگر جیسے ہی کوئی اچھی اور بڑے بجٹ کی فلم آفر ہوئی،تو ضرور سوچوں گا۔

س: کن کن اداکاروں، ہدایت کاروں کے ساتھ اور کس طرح کے کردار ادا کرنے کی خواہش ہے؟

ج: مَیں ماہرہ خان، عائزہ خان، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی اور نعمان اعجاز کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں، جب کہ ساجد حسن ، روبینہ اشرف، حدیقہ کیانی اور بلال عباس کے ساتھ کام کی آرزو پوری ہوچُکی ہے۔ اسی طرح سیفی صاحب، احتشام الدّین کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں،جب کہ وجاہت حسین اور دانش نواز کے ساتھ کام کی دیرینہ خواہش پوری ہوچُکی ہے۔

س: موسیقی کا شوق ہے اور کیا کبھی خود بھی گنگناتے ہیں؟

ج: جی بالکل، مجھے موسیقی سُننے کا بہت شوق ہے۔ اکثر ڈرائیونگ کے دوران یا جِم میں گانے سُنتا ہوں۔ ویسے مجھے پُرانے گیت اچھے لگتے ہیں کہ یہ شوق مجھے ابّو سے وَرثے میں ملاہے۔

س: سُنا ہے، شُوٹنگ پر اپنا ٹفن خود تیار کرکے لے جاتے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟

ج: جی ایسا ہی ہے، مَیں عموماً جَو کا دلیا بنا کر لے جاتا ہوں اور وہی کھاتا ہوں۔اصل میں جب میرے سامنے انواع و اقسام کے کھانے ہوں، تو خود پر کنٹرول نہیں کر پاتا، تو اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اپنا ٹفن ساتھ لے جاؤں، تاکہ ہلکا پھلکا کھا سکوں۔

س: دِل پھینک ہیں یا زندگی میں دِل کسی ایک ہی کو دینے کے قائل ہیں؟

ج: دِل پھینک اس لیے نہیں ہوں کہ میرا کبھی ان باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ مَیں اگر اداکاری کررہا ہوں، تو اُس سے متعلقہ پلانز ہی ذہن میں ہوتے ہیں۔ اور اداکاری سے ہٹ کر سوچوں، تو میرا فوکس بزنس پر ہوتا ہے۔

س: شادی کا کب تک ارادہ ہے؟

ج: فی الحال تو کوئی ارادہ نہیں۔ ابّو کہتے ہیں کہ جب مکمل سیٹ ہوجاؤ، تو پھر شادی کے بارے میں سوچنا۔ چوں کہ گھر والوں کی طرف سے بھی کوئی دباؤ نہیں ہے، تو اپنی بیچلر لائف گھومنے پِھرنے اور موج مستی میں انجوائے کررہا ہوں۔

س: کیا یہ سچ ہے کہ آپ کھانا بہت مزے دار بنا لیتے ہیں، اگر ہاں ،تو کون سی ڈشز اچھی بناتے ہیں؟

ج: کبھی کبھار کھانا بنالیتا ہوں۔ ویسے مَیں آلو کا سالن، بھنڈیاں، چکن وغیرہ مزے دار بناتا ہوں۔ اور سبزیوں کی کٹنگ بہت اچھی کر لیتا ہوں کہ ایک کمرشل میں کام کے لیے اس کی باقاعدہ طور پر تربیت حاصل کی۔

س: سوشل میڈیا سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟

ج: ایک ایسا پلیٹ فارم ،جس کے ذریعے آپ اپنی آواز،اپنےجذبات ، خیالات پازیٹیو یا نیگیٹو دونوں انداز سے دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ کچھ دِن پہلے ہی مَیں ساجد حسین صاحب سے کہہ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے سے برداشت کا مادّہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تقریری مقابلوں کا انعقاد کروائیں، تاکہ تحمّل سے ایک دوسرے کو سُننے کی عادت پیدا ہو۔ سوشل میڈیا پر کوئی بھی فرد دوسرے کو تحمّل سے سُننے کا روادار ہی نہیں۔ اور یہی رویّہ ہمارے گھریلو معاملات پربھی اثرانداز ہورہا ہے۔

س: مَرد و عورت کی برابری کے کس حد تک قائل ہیں؟

ج: ہمیں مَرد و عورت کی برابری کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ دینِ اسلام نے دونوں کو بہترین حقوق تفویض کیے ہیں۔

س: چُھٹی کا دِن سو کر گزارتے ہیں یا …؟

ج: عام طور پر سو کر ہی گزارتا ہوں، لیکن اگر کوئی ضروری کام ہو، تو پھر وقت پر اُٹھ بھی جاتا ہوں۔

س: گزشتہ دِنوں زینب شبیّر اور آپ کے متعلق کچھ باتیں گردش میں رہیں، توحقیقت کیا ہے ؟

ج: زینب شبیّر میری بہت اچھی دوست ہے، اس سے متعلق جو باتیں گردش کررہی ہیں، اُن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

س: مزاجاً کیسے ہیں؟

ج: مجھے عموماً غصّہ نہیں آتا ہے، لیکن جب آتا ہے، تو بہت شدید قسم کا۔کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مبادا اظہار کیا، تو کہیں ریڈ لائن کراس نہ ہوجائے۔

س: زندگی کا کوئی ایسا فیصلہ، جسے دوبارہ کرنے کا اختیار ملے تووہ یک سر مختلف ہوگا؟

ج: ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ لکھا ہوا ہے، اس لیے زندگی میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ ایسا ہی ہونا طے تھا۔ مَیں زندگی میں اگر، مگر اور کاش کا قائل نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جو ہورہا ہے، اُسے ہی اچھے طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرکے، نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

س: اگر ہم ایک سیگمنٹ کریں’’عید کا دِن اسامہ خان کے ساتھ‘‘تو آپ اپنے دِن بَھر کا احوال کیسے سُنائیں گے؟

ج: مَیں نماز ِعید پڑھ کر قبرستان چلاجاتا ہوں۔ واپسی پر گھر والوں اور اڑوس پڑوس کے لوگوں سے عید ملتا ہوں۔ پھر قربانی کے فریضے کی ادائی کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ یعنی گوشت تقسیم کرنا کچھ تھکا دینے والا عمل ہے، لیکن مزہ آتا ہے کہ اس بہانے سب سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ پھر شام میں ہم سب بہن اور دیگر رشتے داروں کے گھر جاتے ہیں۔ اگلے دِن بہن، بہنوئی ہماری طرف آجاتے ہیں، تو خُوب ہلّا گلّا رہتا ہے، جب کہ عید کا تیسرا دِن شہر سے باہر گزرتا ہے، تاکہ دُور دراز کے رشتے داروں سے بھی ملاقات کی جاسکے۔ یوں عموماً عید کے تینوں دِن اپنے پیاروں کے سنگ میل ملاقات ہی میں گزر جاتے ہیں۔

س: آپ کی کوئی انفرادیت؟

ج: اگر کوئی مجھ سے تعلقات خراب بھی کرنا چاہے، تو میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح تعلق بنا رہے۔ مَیں اُس کے خلاف کسی کے کان بَھرتا ہوں، نہ منفی پروپیگنڈا کرتا ہوں اور یہی میری انفرادیت ہے۔

س: اپنے پرستاروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: زندگی میں کبھی بھی ہمّت نہ ہاریں، کوشش کرکے آگے بڑھتے رہیں کہ اللہ نے آپ کے لیے جو لکھا رکھا ہے، وہی آپ کے لیے سب سے بہتر ہے۔