• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تباہ کن بارشوں نے زندگی مفلوج کردی

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی بادل جم کر برسے بارش نے جہاں پانی کی قلت دور کی زراعت کو فائدہ پہنچایا وہاں شہری علاقوں میں تباہی پھیلادی، بارش کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے بعض حلقوں نے کہاہے کہ کراچی کی بارش پی پی پی کو بھی بہا کرلے گئی بارش سے سندھ میں بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا نالوں کی صفائی اورنکاسی آب کے انتظامات ناہونے کے سبب شہر کے مختلف علاقوں کی سڑکیں اورنشیبی علاقے زیرآب آگئے، اہم شاہراہیں دریا کی شکل اختیار کرگئیں اور بلدیاتی اداروں کی جانب سے نکاسی آب کے انتظامات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، متعدد گھروں میں پانی داخل ہوگیا۔ 

سندھ اسمبلی کی چھت بھی بارش کے سبب ٹپک پڑی جس پر اپوزیشن نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج کیا اور کہا کہ سندھ حکومت کا یہ حال ہے کہ سندھ اسمبلی کی بلڈنگ بھی ٹھیک طرح نہیں بنا سکے بارش کا پانی سندھ اسمبلی میں بھی جمع ہو گیا تھڈوڈیم اوورفلو، ملیری ندی میں طغیانی آگئی۔ اس کے علاوہ موسلاد دھار بارش سے اندرون سندھ بھی ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ صوبےکے مختلف علاقے زیرآب گئے، سائن بورڈزاور درخت کرگئے،گھروں میں پانی بھرگیا، کینال کے پشتے کمزور پڑگئے، آسمانی بجلی گرنے سے بھینسیں اور بکریاں مرگئیں۔ 

محراب پورنوشہروفیروزنصرت کینال کا پل گرگیا۔جس کے نتیجے میں12 سالہ اسحاق دایو جاں بحق اور دوافراد زخمی ہوگئے۔ کنڈیارو میں بھی تیز بارش ہوئی۔ جس کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ اسی طرح ہالا اور بھٹ شاہ سمیت ضلع بھر میں تیز ہوا چلنے سے قومی شاہراہ پر لگے سائن بورڈز اوردرخت گرگئے، جس کے نتیجے میں گاڑیاں آپس میں ٹکرانے سے 6 افراد زخمی ہوگئے۔ بھٹ شاہ کے قریب گاؤں الیاس پڑھیاڑ کے نزدیک روہڑی کینال کے پشتے کمزور پڑگئے، جس میں شگاف پڑنے سے سیکڑوں ایکڑ تیار فصل ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ 

کھپرواور روہڑی میں بارش کا پانی جمع ہونے سے سڑکیں تالاب کا منظرپیش کرنے لگیں۔ دولت پور میں تیز بارش کے باعث مکان کی چھت گرنے سے ایک شخص جاں بحق اور دو بچوں وخاتون سمیت 3 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ بارش کے سبب بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی مہم اور این اے 245 پر ضمنی انتخاب کی مہم بھی متاثر ہوئی ادھر سندھ میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی تیاریاں مکمل ہیں امیدوار ڈور ٹو ڈور مہم چلارہے ہیں۔

دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب میں سجاول، ٹھٹھہ، جامشورو، حیدرآباد میں پی پی پی کو برتری حاصل ہے اور اس کے ڈیڑھ سو کے قریب امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار دیئے جاچکے ہیں تاہم اصل نگاہیں حیدرآباد اور کراچی کے بلدیاتی انتخاب پر مرتکز ہیں جہاں ایم کیو ایم، پی پی پی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، تحریک لبیک، جے یو آئی، پاک سرزمین پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ، اے این پی اور دیگر جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں تاہم کراچی اور حیدرآباد کا معرکہ سر کرنا کسی اکیلے جماعت کے بس کی بات نہیں اسی لیے سیاسی جماعتیں علاقائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کررہی ہیں۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی کے 7 اضلاع کے 25 ٹاؤنز کی 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 1476 نشستوں کے لیے مختلف جماعتوں اور آزاد 9 ہزار 500 کے قریب امیدوار میدان میں ہیں اور انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ اس مرحلے پر84لاکھ 5 ہزار 475 ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے دعوؤں کے مطابق پیپلزپارٹی کے 1400 سے زائد، تحریک انصاف کے1300 سے زائد، متحدہ قومی موومنٹ کے ساڑھے 13 سو، جماعت اسلامی کے ساڑھے 11سو، تحریک لبیک کے 1100 امیدوار میدان میں ہیں۔

جبکہ جمعیت علماء اسلام ، مسلم لیگ(ن)، عوامی نیشنل پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر کے بھی 3 ہزار کے قریب امیدار میدان میں ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی نے تاحال کسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی جماعت اسلامی نے علاقائی سطح پر سو سے زائد مختلف نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے جبکہ دیگر جماعتوں نے کسی نا کسی سطح پر ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔

تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کی ترجیح زیادہ سے زیادہ یونین کمیٹی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی نشستوں کا حصول ہے۔ کراچی میں 24 جولائی کو 84 لاکھ 5 ہزار 475 ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے جن کے لیے 5003 پولنگ اسٹیشنزقائم کئے گئے ہیں اور 62 ہزار 174 افراد پر مشتمل انتخابی عملہ خدمات سرانجام دے گا۔

پہلےمرحلے کی نسبت دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات انتہائی حساس ہیں ممکنہ طور پر پولنگ کے دن الیکشن کمیشن فوج کی خدمات لیں این 240 میں ہونے والی کشیدگی، لڑائی جھگڑے اور فائرنگ کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے دوران ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد اور اسے مزید سخت کرتے ہوئے بڑے سیاسی جلسوں وکارریلیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو بڑے جلسوں کے انعقاد سے روکتے ہوئے کہاگیا ہے کہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے بڑے جلسے نہیں کرسکیں گی۔ صرف کارنر میٹنگ کے انعقاد کی اجازت ہوگی، جبکہ نئے ضابطہ اخلاق میں بلدیاتی الیکشن میں کار ریلیوں کا انعقاد بھی ممنوع قرار دیا گیاہے۔ 

سرکاری عمارتوں اور کھمبوں پر جھنڈے لگانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ امیدواروں کو مقررہ سائز سے بڑے ہورڈنگز، پینافلیکس اتارنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو یہ ضابطہ اخلاق ارسال کردیا گیا ہے۔ عملدرآمد کے لیے ڈپٹی کمشنرز اور متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ کو بھی مراسلے بھیجے دیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی مذکورہ پابندیوں کو دیکھتے ہوئے کہاجارہا ہے کہ سندھ حکومت الیکشن میں امن وامان قائم رکھنے میں ناکام نظرآئی ہے اسی لیے الیکشن کمیشن نے یہ قدم اٹھایا ہے۔

24 جولائی کو بلدیاتی انتخاب ہونے کے بعد 27 جولائی کو پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی وفات سے خالی ہونے والی نشست این اے 245 پر بھی انتخاب ہوگا اس نشست پر 19 امیدوار مدمقابل رہ گئے ہیں۔ این اے 245 پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے معید انور امیدوار ہوں گے، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمود مولوی ہیں، ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر فاروق ستار آزاد حیثیت میں اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے، پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے حفیظ الدین جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے دانش خان امیدوار ہیں۔

مذکورہ حلقے سے مہاجر قومی موومنٹ بھی میدان میں ہے اور اس کی جانب سے شاہد فراز الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، تحریک لبیک پاکستان کے احمد رضا اور جمعیت علمائے اسلام ف کے امین اللہ بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں اس نشست پر27 جولائی کو ضمنی الیکشن ہونا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ضمنی الیکشن کے لیے آرمی چیف سے فوج تعینات کرنے کی درخواست کی ہے۔

یہ دونوں انتخاب کراچی کی آئندہ سیاست کا رخ متعین کریں گے لہذا یہ انتخاب کراچی میں عوامی قوت رکھنے والی تمام جماعتوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ادھرسندھ سے سینیٹ کی ٹینوکریٹ کی خالی نشست پر پیپلزپارٹی کی ڈاکٹرخالدہ سکندر میندھرو 168 میں سے 97 ووٹ لیکر کامیاب ہوگئی ہیں۔جبکہ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے باعث ان کے امیدوار نورالحق قریشی کو ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔

یہ نشست ڈاکٹر سکندر میندھرو کے انتقال کے سبب خالی ہوئی تھی دوسری جانب سندھ کابینہ نے بڑھتی ہوئی خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2022، سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی اور کیماڑی ضلع میں 2000 ایکڑ اراضی پر انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کی منظوری دے دی۔ کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا، صوبائی وزراء ، مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکریٹری، چیئرمین پی این ڈی اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید