• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

زین قریشی نے والد کی شکست کا بدلہ لے لیا

ملتان کے صوبائی حلقہ 217 پر پورے ملک کی نظریں جمی ہوئی تھیں، جب شام کے وقت اس حلقہ کے نتائج آنا شروع ہوئے اور زین قریشی کی برتری نظر آنے لگی، تو گویا یہ ایک اشارہ تھا کہ اب باقی حلقوں میں بھی تحریک انصاف اکثریت حاصل کرے گی، ملتان کا یہ حلقہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا، اگر شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی سلمان نعیم سے شکست کھا جاتے، تو یہ ایک طرح سے شاہ محمود قریشی کی سیاست کا دروازہ بند ہونے کے مترادف ہوتا، کیونکہ اس حلقہ سے وہ اسی سلمان نعیم سے عام انتخابات میں شکست کھا گئے تھے۔ 

انہوں نے یہ بہت بڑا رسک لیا تھا کہ اپنے بیٹے کو اس حلقہ میں اتارا اور وہ بھی اس سلمان نعیم کے سامنے جو ایک لحاظ سے ان کی کمزوری بن گیا تھا، اب تبصرے یہ ہو رہے ہیں کہ زین قریشی کی جیت عمران خان کے بیانیہ کی وجہ سے ہوئی یا اس میں شاہ محمود قریشی کی موثر انتخابی مہم کا ہاتھ ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجموعی طور پر عمران خان کے اس بیانیہ نے جو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اختیار کیا اور جس میں اپنی حکومت کے خاتمے کا باعث اس امریکی سازش کو قرار دیا ،جو یہاں کے سیاستدانوں سے مل کر کی گئی، یہی نہیں، عمران خان نے جس بھرپور انداز سے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد عوام کو متحرک کیا ،بڑے بڑے جلسے کئے اور عوام کی ذہن سازی کی کہ انہیں اس مبینہ سازشی بیانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے، اس کے بعد جب منحرف ارکان کے بارے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا اور الیکشن کمیشن نے سپیکر پنجاب اسمبلی کے ریفرنس پر بیس ارکان کی رکنیت ختم کردی، تو گویا عمران خان کو اپنے بیانیہ کی سپورٹ میں ایک بہت بڑی مثال مل گئی۔ 

جب ان ضمنی انتخابات کی الیکشن مہم کا مرحلہ شروع ہوا، تو سب سے پہلے عمران خان نے حلقہ وار جلسوں کا آغاز کیا، ان کی دیکھا دیکھی مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز نے جلسے کرنا شروع کئے، مگر عمران خان اس حوالے سے بہت آگے نکل چکے تھے، انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا اہم جلسہ ملتان میں کیا، جس میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے لیے حلقہ کے عوام سے نہ صرف ووٹ مانگا بلکہ یہ بھی کہا کہ انھیں وفاداریاں تبدیل کرنے والے "لوٹوں " کو مسترد کر دینا چاہیے ، دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے اس انتخابی حلقہ کے لئے خود کو وقف کردیا، کبھی موٹر سائیکل پر، کبھی پیدل ، وہ ڈور ٹو ڈور زین قریشی کے لئے ووٹ مانگتے رہے۔ 

دوسری طرف سلمان نعیم کے لئے اگرچہ سید یوسف رضا گیلانی بھی موثر انتخابی مہم چلا رہے تھے، مگر پیپلز پارٹی کا زیادہ ووٹ بینک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم کارگر ثابت نہ ہوسکی ، مسلم لیگ ن سے غلطی یہ ہوئی کہ اس کی قیادت نے مقامی مسلم لیگی دھڑے بندی کو ختم کرنے کی بجائے عابد شیر علی کی شکل میں ایک تیسرا دھڑا کھڑا کر دیا، انہیں فیصل آباد سے ملتان بھیج کے انتخابی مہم سونپ دی گئی جبکہ یہاں ملک رفیق رجوانہ ،عبدالغفار ڈوگر، رانا محمود الحسن ، عبدالوحید ارائیں، شیخ طارق رشید، ملک انور ، آصف رجوانہ ، شاہد محمود خان جیسے بڑے مسلم لیگی رہنما موجود تھے، جنہیں یہ ذمہ داری سونپی جاسکتی تھی، مگر انہیں نظر انداز کرکے عابد شیر علی کو یہ ٹاسک دیا گیا اور عابد شیر علی نے سینئر رہنماؤں کو ساتھ ملانے کی بجائے اپنے دوستوں اور پارٹی کے غیر فعال، غیر نمایاں افراد کے ذریعے انتخابی مہم چلائی، جو بری طرح پٹ گئی، اب یہ عموماً یہاں کہا جا رہا ہے کہ اگر سلمان نعیم مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی بجائے 2018 ء کے انتخابات کی طرح آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیتے، تو ان کی پوزیشن شاید اس سے بہتر ہوتی۔ 

بہرحال حالات کچھ بھی رہے ہوں، شاہ محمود قریشی کے لئے یہ ایک بڑی خوشی اور اطمینان کی گھڑی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ذریعے اپنی اس شکست کا بدلہ لے لیا ،جو ان کے لیے ایک طعنہ بنی ہوئی تھی ، سلمان نعیم کو اپنے بیٹے سے ہروا کر شاہ محمود قریشی نے اپنے آنے والے انتخاب کی راہ بھی ہموار کرلی ہے، وگرنہ کہا یہ جا رہا تھا کہ سلمان نعیم قو می اسمبلی کے حلقہ میں بھی شاہ محمود قریشی کا مقابلہ کریں گے، مگر اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے، سلمان نعیم کے ایک غلط فیصلے نے اس ابھرتے ہوئے سیاستدان کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔ 

دوسری طرف شاہ محمود قریشی اب یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو پنجاب حکومت کے سیٹ اپ میں کوئی اہم کردار ملے، انتخابی مہم کے دوران تو یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ زین قریشی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے، مگر چوہدری پرویز الہی چونکہ پہلے ہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن چکے ہیں اور ق لیگ کے بغیر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حصول بھی ناممکن ہے، اس لئے شاید زین قریشی کو صوبائی کابینہ میں حصہ مل جائے، دلچسپ بات یہ ہے کہ حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہونے کی صورت میں ملتان کے ایک مخدوم کا بیٹا کابینہ سے آؤٹ ہو جائے گا اور دوسرے مخدوم کا بیٹا کابینہ میں جگہ بنالے گا۔

شاہ محمود قریشی کے بیٹے لئے تو وزارت کا امکان اس لیے بھی موجود ہے کہ پی ٹی آئی اب پنجاب کی ایک بڑی جماعت ہے، لیکن یوسف رضا گیلانی کو اپنے بیٹے کو وزیر بنانے کا اب شاید دوسرا چانس نہ مل سکے، کیونکہ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں نہ تو کبھی اکثریت رہی ہے اور نہ مستقبل میں نظر آتی ہے، ملتان کے ضمنی انتخاب نے جہاں شاہ محمود قریشی کے سیاسی قد کاٹھ کو بحال کیا ہے وہی تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، اب شاید آئندہ انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو ملتان سے شکست نہ دی جا سکے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید