پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وہ قائدین اور راہنما جو پولنگ سے صرف ایک دن پہلے بلکہ پولنگ کے دوران بھی اپنی فتح مندی کے دعوؤں میں مصروف پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پر کڑی تنقید اور الزامات عائد کر رہے تھے اور پی ٹی آئی کو بیس میں سے چار یا پانچ نشستیں دینے پر بھی مشکل ہی تیار نظر آتے تھے۔ ان کو انتخابی مہم کو ناکام اور الیکشن لڑنے کے اسرار و رموز سے ناواقف ہونے کے طعنے دے رہے تھے لیکن نتائج سامنے آنے پر انہوں نے حیرت انگیز طور پر نہ صرف ان نتائج کو تسلیم کیا، اپنی شکست کا اعتراف کیا اور عوامی فیصلے کے سامنے سرجھکانے کی بھی بات کی۔
اب مسلم لیگ (ن) کے مخالفین ان راہنماؤں کے اس طرز عمل پر جو چاہیں تبصرے کریں لیکن امر واقعہ ہے کہ پاکستان میں اسے ایک ایسی تبدیلی کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے جس کی ابتداء پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کی ہے اور حقیقتاً یہی طرز عمل جمہوریت کا حسن ہے۔ مریم نواز کا یہ کہنا کہ عوامی فیصلوں کے سامنے سرجھکانا اور اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے اگر ان کے اس بیان کو ان کی بطور اپوزیشن راہنما اب تک کا شاندار اور یادگار بیان قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ مسلم لیگی راہنمائوں کا یہ ماننا کہ انتخابی نتائج یہ بتا رہے ہیں کہ عوام نے پی ٹی آئی کا بیانیہ قبول کیا۔
ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ انہیں ووٹ کیوں ملے پاکستان میں شکست سے دوچار ہونے والی جماعت کا اولین اور بہترین بہانہ ہے جو ملک میں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے اور سیاسی رویوں کو ایک نئی جہت دینے کی طرف اہم پیشرفت ہے جس پر مسلم لیگ (ن) مبارکباد اور ستائش کی مستحق ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شکست کے اسباب اور عوامل پر نظر ڈالی جائے تو اس کی ایک سے زیادہ وجوہات سامنے آتی ہیں جن میں مہنگائی کا طوفان بالخصوص پٹرولیم کی مصنوعات میں غیر معمولی اضافہ اور روپے کی قیمت میں گراوٹ وفاقی حکومت میں غیریقینی کی صورتحال بھی شامل ہوں گی لیکن ان وجوہات میں ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کے منحرفیں کو ٹکٹ دینا بھی شامل تھا۔
لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا اور اکثریت نے ووٹ ڈالنے سے ہی گریز کیا اس طرح جن لوٹوں کی وجہ سے حکومت بنی تھی انہی کی وجہ سے ختم بھی ہو رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف ان ’’لوٹوں‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ہم مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے کی وجہ سے ہارے ۔ پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی 15 نشستوں پر کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی اب ملک کے طاقتور صوبے کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائزہونے والے ہیں اس سے قبل وہ 2002 سے 2007 تک اسی منصب پر فائز رہے۔
صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ان کیلئے بطور خاص نائب وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کیا گیا تھا اور پرویز الٰہی تقریباً نو ماہ اس منصب پر فائز رہے اگر طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ 22 جولائی کو اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ حق بحقداررسید‘‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں کچھ بے ضرر اور کچھ طاقتور آوازیں ایسی موجود ہیں جو پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی راہ میں مزاحم ہوسکتی ہیں اور عمران خان کی خواہش کے باوجود سرگوشیوں میں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں، ان میں سرفہرست شاہ محمود قریشی بھی ہیں جن کا بظاہر موقف یہ ہے کہ پنجاب میں اقتدار کی طاقت کسی اتحادی پارٹی کو دینا کسی طور پر بھی درست فیصلہ نہیں ہوسکتا جبکہ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین اس فیصلے کی مخالفت میں یکجا ہو رہے ہیں۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پنجاب میں آنے والی یہ تبدیلی وفاقی حکومت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو ملنے والی اس کامیابی میں ان کے اعتماد اور سیاسی طاقت میں اضافہ کیا ہے اور اب وہ اپنے ان مطالبات جن کو تسلیم کرانے کیلئے وہ جلسے جلوسوں کا سہارا لیتے تھے اب مکالمے کی طاقت سے بھی منوانے کی کوشش کریں گے جیسا کہ انہوں نے فوری طور پر چیف الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح اب وہ زیادہ طاقت سے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ حاصل کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔
اس حوالے سے ان کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے لیکن پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان میں اس بات کا زعم پیدا ہوگیا ہے کہ اگر وہ عوام کو اپنے بیانیے کا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ان آپشنز کو بھی استعمال کرسکتے ہیں جن میں لانگ مارچ، ریفرنڈم طرز کے اقدامات کی دھمکی بھی ہوسکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے پاس اس صورتحال کا مقابلہ سیاسی میدان میں صرف ایک شکل میں کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی، لیکن کیا میاں نواز شریف موجودہ صورتحال میں وطن واپس آئیں گے فی الوقت تو یہ ’’ملین ڈالر سوال ‘‘ ہے۔
گوکہ بعض مسلم لیگی راہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ میاں صاحب کی وطن واپسی کیلئے خاموشی سے حکمت عملی وضع کی جارہی ہے اور وہ کسی وقت بھی وطن واپسی کا اعلان کرکے سرپرائز دے سکتے ہیں ماضی قریب میں بھی میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بارے میں متضاد دعوے کئے جاتے رہے ہیں رواں سال کے آغاز پر سردار ایاز صادق نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا تھا کہ وہ لندن جارہے ہیں اور نواز شریف کو ساتھ لیکر ہی واپس آئیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک موقعہ پر مریم نواز نے اسلام آباد میں میڈیا ٹاک کے دوران کہا تھا کہ اگر اس بات کی ضمانت دے دی جائے کہ میاں صاحب کی زندگی محفوظ ہوگی تو میں آج شام ہی ان کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہوں۔
لیکن میاں صاحب کی طرز سیاست پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کی واقعاتی شہادتیں موجود ہیں کہ نہ تو وہ کسی سیاسی ایڈونچر پر یقین رکھتے ہیں، نہ سپرائز دینے پر اور نہ ہی انتقامی سیاست پر۔ تین سال سے وطن سے دور ایک محدود اور خاصی حد تک یکسانت کی زندگی گزارنے کے ساتھ ان کی علالت اور بڑھتی ہوئی عمر پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاست میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی نہیں لاسکتی البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان کی وطن میں موجودگی سے مسلم لیگی کارکنوں اور راہنماؤں کا اعتماد ضرور بڑھ سکتا ہے اس لئے اگر پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوجاتا ہے تو مسلم لیگ (ن) کیلئے میاں نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی ہی ایک بڑا ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قبل از وقت انتخابات ہی سیاسی انتشار اور بحران ختم کرنے کا واحد راستہ ہے ؟