آسیہ عمران
آپ عنوان پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے یہ کون سی گیلری ہے۔ تھوڑی دیر بعد خود سمجھ جائیں گی۔ بات کررہی ہوں، اپنی حسین یادوں کی،جو خوب صورت گیلری میں محفوظ ہیں۔ قصہ مختصر کچھ یوں ہے کہ، میں ڈاکٹر ہوں ۔ہائوس جاب کے فوری بعد میری شادی ہوگئی۔ گھر میں سب سے چھوٹی تھی ،اس لیے ابّا جان کی کچھ زیادہ ہی لاڈلی بیٹی تھی۔ بڑی بہنیں پڑھائی کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی طاق تھیں یہ کام مجھے بھی کرنے چاہیےتھے لیکن پڑھائی کی وجہ سے اس بارے میں کبھی نہیں سو چا تھا۔
آخری سالوں کے بارے میں اتنا یاد ہے، میں تھی میرا کمرہ ,لیپ ٹاپ، موبائل، یونیورسٹی ،بڑی بڑی کتابیں اوراسپتال کے وارڈ تک محدود زندگی۔ چھٹی کے دن گھر والوں سے تفصیلی ملاقات ہوتی۔ ابا جان کسی مہمان کی طرح آؤ بھگت کرتے جب کہ امّاں چبھتی آنکھوں سے مجھےدیکھتی رہتیں اکثر ایسا لگتا کہ بس ،اب اماں سے مار پڑنے والی ہے ،کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ چوبیس گھنٹے صرف پڑھائی کا چکر مجھے تباہ کررہا ہے ، زندگی کے کئی تقاضے ہیں جن سے میں یکسر نابلد ہوں۔
جب امّی میری طرف دیکھتے ہوئےکچھ نہیں کہتیں توابا جان امی کوبتاتے کہ اسے انڈا اُبالنا ،چپس بنانا ،نوڈلز ،چائے بنانا یہ سب تو آتا ہے ۔ یہ سن کر اماں کا غصہ مزید بڑھ جاتا۔ وہ ابا جی پر برستیں کہتی کہ آپ نے اسے بگاڑا ہے۔ لیکن میں کیسے بگڑی؟ یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہ آتی تھی۔ سمجھ تب آئی جب ہاؤس جاب کے فوراً بعد سسرال سدھاری، میرے مطابق یہاں تو سب کچھ ہی الٹ تھا۔
چند دنوں میں ادراک ہو ا کہ یہاں کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں مجھے ہی تبدیل ہونا ہے۔ اب تک امی کے گھر کی جادوئی چھڑی کی عادی تھی۔ کالج سے لوٹتی توسب کچھ مرتب اور سمٹا ہوا ملتا تھا۔ اب میری حالت کا اندازہ لگائیے، جس کمرے میں دونوں ہی چیزیں پھیلانے والےہوں تو اس کمرے کا حال کیا ہوگا، یہ تصور کرنا قطعی مشکل نہیں۔ متضاد الفاظ اسکول میں پڑھے تھے عملی طور پرحالات بھی متضاد ہوسکتے ہیں،اس بات کا اندازہ قطعاً نہیں تھا۔
نئے گھر کی تیاری پڑھائی کے پرتھکن ماحول کے بعد خوشی کا باعث تھی، مگر وائے قسمت کہ خوش فہمی چند ماہ میں ہی دھری کی دھری رہ گئی یہاں تو سوچنے کا انداز ہی جدا تھا۔ جگہ ہی ذمہ داری سے پر ملی تھی اور میں وہ تھی جسے ٹریننگ کے بغیر میدان جنگ میں اتار دیا گیا تھا۔ زیادہ حیرت تو اس بات پر تھی کہ کسی کو میرا ڈاکٹر ہونا یاد ہی نہ تھا، سب مجھے ایک مکمل گھر گھرستی والی عورت کے پیمانے پر تول رہے تھے۔ میں اسی میں گھن چکر بن گئی تھی کہ میاں کا تبادلہ بیرون شہر ہو گیا ۔وہاں ایک بڑا گھر کوئی کچھ بتانے والا نہ تھا، سر پر گویا پہاڑ آ گرا۔
صحیح معنوں میں اماں کی پریشانی سمجھ آئی کہ وہ دراصل اس وقت کے لئے تیار کرنا چاہتی تھیں۔ دوران تعلیم سرچنگ میں اچھے سے اچھے کی تلاش کی پریکٹس تھی ۔ لہٰذا اگلے اسباق کے لئے گیلری میں کافی کچھ ڈاؤن لوڈ کر لیا۔ کچھ اسکرین شاٹس لئے، جنھیں بار بار پڑھا۔ آگے کچھ کرنے کا حوصلہ جیسے بڑھ سا گیا تھایہی سب سے بڑی کا میابی تھی۔ کچن ،کھانا پکانا ،بچّوں کا ، گھر کا خیال آسان نہ تھا ۔ تین بچوں تک بہت کچھ سیکھ گئی۔ معمولات قدرے درست ہوئے تو انکشاف ہوا کہ خود کو بالکل بھول بیٹھی ہوں۔
آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اپنا رنگ دکھانے لگے ۔ یہاں بھی گیلری میں لئے گئےاسکرین شاٹس اور ویڈیوز کام آئیں۔ پہلی فرصت میں مجھے مکمل نیند لینی تھی، جب کہ پہلے بچوں کے سوتے ہی کاموں میں لگ جایا کرتی ۔ اب اس وقت خود سونے کا ارادہ کیا اور بچوں کے ساتھ ساتھ کام ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایک سال میں ہی بہت کچھ بہتر ہو چکا تھا۔ ہر اسکرین شاٹ میرے سفر کا چشم دید گواہ تھا۔ سوچ رہی ہوں پرنٹ آؤٹ نکلوا لوں ،کیوں کہ اب موبائل بچّوں کے ہاتھوں میں رہتا ہے ۔کوشش کرتی ہوں بچّوں کو اس سے دور رکھوں۔ یہ میرے سیکھنے کے مراحل تھے ،باربار گر کر اُٹھتی ،چلنے کی کوشش کرتی تو لڑکھڑاکر گرجاتی ،پھر اُٹھتی آخر کام یابی مل گئی۔
آج میری گیلری میری محبوب ترین گیلری ہے، جس میں آٹھ سو ویڈیوز اس وقت بھی ڈاؤن لوڈ ہیں۔ یہ ویڈیوز زندگی کے روحانی ،نفسیاتی ، معاشرتی اورشخصی پہلوؤں سے متعلق ہیں۔ ایک ماں، بیوی ،بہن اور بیٹی کے فرائض کی یادہانی بھی ،کہ اب سا سو ماں اور اماں کو دن میں ضرور فون کرتی ہوں بچوں سے بات بھی کرواتی ہوں چند دن کی بھی فرصت ہوتو بچوں کو لے کر ان کے پاس پہنچ جاتی ہوں۔ اب گھر کو مینیج کر کے خود کو اور رشتوں کو وقت دینے کا طریقہ بھی سمجھ آگیا ہے۔
کئی ویڈیوز خود کو پرموٹ کرنے کے لئے سنتی ہوں کئی ویڈیوز جہاں روزانہ سننے کے بعد ڈیلیٹ ہوتی ہیں تو کئی نئی جگہ بنا لیتی ہیں۔ جو کچھ بچوں کو بتانا چاہتی ہوں وہ لگا دیتی ہوں۔ میرے ساتھ ساتھ بچے بھی غیر محسوس انداز میں ان باتوں سے آگاہ ہو رہے ہیں ۔ اس وقت گھر کے ایک حصہ میں کلینک ہے جہاں دو گھنٹے بیٹھتی ہوں۔ اپنی گیلری کی گرویدہ ہوں ،جس نے سکھایا زندگی میں توازن کیا چیز ہے اور اس کے لئے کیا کرنا چاہیے۔
i am so proud of you my dear galary