اسلام آباد (فاروق اقدس/ نامہ نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کرانے اور حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا منصب برقرار رکھنے کا اصل کریڈیٹ کس کو جاتا ہے بعض حلقوں اور طبقوں کے نزدیک یہ نتیجہ حیران کن اور بعض کے نزدیک خاصا پریشان کن تھا
لیکن حکومت کی بعض شخصیات جن میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سرفہرست تھے اور وہ حتمی فیصلے سے قبل نہ تو خود منظرعام پر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی بیان اسی طرح مریم نواز جو مبینہ طور پر کورونا کا شکار ہونے کے باعث قرنطینہ ہوچکی ہیں ان کا بیان بھی کامیابی کے اعلان کے بعد ہی سامنے آیا۔
انہوں نے اس دوران کسی اضطراب کا مظاہرہ نہیں کیا اب ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) کے حلقے اس فتح اور کامیابی کا سارا کریڈیٹ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں اور یہ ہدایت بھی کی جارہی ہے کہ مسلم لیگی زعما اس حوالے سے بیانات دیں اور چوہدری شجاعت حسین کو خراج تحسین اور ستائش پیش کی جائے کہ انہوں نے اپنے رشتوں اور تعلق کی قیمت پر ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ عمران خان کے امیدوار کو کسی صورت ووٹ نہیں دیں گے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور اس طرح انہوں نے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے کی بنیاد رکھی۔