بَڈی آسٹریا کے اسیرنظر آتے تھے۔ موسیقی، رنگ و خُوشبو کے دل دادہ، قدیم وجدید کے حسین امتزاج سے معمور اور آزاد زندگی کے قائل کا دل پسند سامانِ زیست ویانا میں حسب ِخواہش موجود تھا۔ موزارٹ، بیتھوون اور اسٹراس کا وطن، ایک ایسی سرزمین، جہاں الپس پہاڑوں اور وادیوں میں چلّا کر ترسیلِ مُدعا نے یوڈلنگ جیسی لوک گایگی کو جنم دیا، جس نے حلق کے زور پر گایکی کی طرز کی بنیاد رکھی۔ پولکا اور والز کے رقصوں، گولاش (آلو گوشت سے مماثل سُوپ) اور منفرد خوش ذائقہ نفیس پیسٹریوں، قلعوں، محلوں اور پُرشکوہ تعمیرات کا ملک آسٹریا، جو عظیم آسٹروہنگیرین سلطنت کا فقط مہین پرتَو تھا، تب تک قدامت میں سانس لیتا تھا۔
جنگ ِ عظیم کی ہول ناک تباہی کے نتیجے میں دولاکھ یہودی تعداد میں گھٹ کرتہتّرسو رہ گئے تھے۔ آسٹریا میں ایک جانب قدامت کی علامت 1191 ء میں تیارکردہ پرچم لہراتا تھا، تو دوسری جانب جدید نفسیات کا اہم نام سگمنڈ فرائڈ ویانا میں پیدا ہوا تھا۔ جدّت کا یہ عالم تھا کہ جدید قیمتی فیشن ایبل گاڑیوں کی کمپنی پورش(Porsche) کا مالک، فرڈی نینڈ پورش ویانا میں پیدا ہوا تھا۔ جب بَڈی وہاں پہنچے، تو وہ صنفی برابری میں دنیا بھر کا ممتاز شہر بن چکا تھا۔ یہ ویانا ہی ہے، جہاں بسوں میں والدین کے بیٹھنے کی جگہ کی نشان دہی بچّوں کی مَردوں(والد) کے ساتھ تصویروں سے کی جاتی ہے۔ جنسی برابری کے مظاہر جابہ جا نظر آتے ہیں۔ بَڈی کا ارادہ وہاں طویل قیام کا نہ تھا۔
وہ وہاں قدم جما کر، اپنے آپ کو یورپ کے ماحول سے ہم آہنگ کرنے اور معاشی آسودگی حاصل کر کے آگے بڑھ جانے کی خواہش رکھتے تھے۔ ’’ملازمت کے دوران مجھے وہاں دو لڑکیوں سے بہ یک وقت اُنس ہوگیا۔‘‘ ’’ایک مرد کے بہ یک وقت دو عورتوں سے محبت میں مبتلا ہونے یا ایک عورت کے دو مَردوں سے عشق میں گرفتار ہوجانے پر تو فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔‘‘ اُنھی دِنوں مَیں نے ایک سینما میں اِسی موضوع پر فلم ’’ریڈ شوز ڈائریز‘‘ دیکھی تھی۔ بڈی کے مکالمے ہُوبہ ہُو یہ تو نہ تھے، البتہ مفہوم ایسا ہی تھا۔’’محبت ایک خوف ناک جذبہ ہے۔ یہ انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔ انسان آزاد زندگی اور آزاد فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اِسی لیے مَیں نے زندگی بھر کوشش کی ہے کہ محبّت میں نہ جکڑا جاؤں۔ پسندیدگی اور اُنس علیحدہ معاملات ہیں۔‘‘
’’محبّت ایک شان دار جذبہ ہے۔ یہ احساس کہ کوئی آپ سے محبت میں مبتلا ہے، کسی دیگر احساس سے زیادہ لُطف و مسرت کا باعث ہوتا ہے۔‘‘ مَیں محبّت کی حمایت میں بولا، تو بَڈی نے اپنی روایتی دل آویز مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور بولے۔’’رہےناں بچّے کے بچّے۔ عورت، مرد کا عشق ایک عارضی جذبہ ہے۔ یہ لافانی اور دائمی احساس نہیں۔ مَیں نے دنیا بھرمیں اپنے قدموں سے چل کر یہی دیکھا ہے۔ مَیں رہتاویانا میں تھا، مگر جب موقع ملتا، تو پورے یورپ کی سیاحت کو نکل جاتا۔
زندگی کو ہر پابندی سے مُبرّا، اپنے ہی رنگ ڈھنگ سے جینے والا شخص
بہت کم جوڑے ایسے ہوتے ہیں، جن میں عشق ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ ایک دوسرے کی عادت ہوجانے، کوئی اور انتخاب نہ ہونے، معاشی، معاشرتی اور روایتی ضرورت کے تحت اکٹھے رہنے کو محبّت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ شاید اسے لگاؤ اور ہم دردی کہا جاسکتا ہے۔‘‘میری دل چسپی اُس واقعے میں تھی، جس میں بڈی کو دو لڑکیوں سے بہ یک وقت اُنس ہوگیا تھا۔ ’’ان دونوں لڑکیوں کو بھی مجھ سے لگاؤ ہوگیا تھا، وہ بھی محبّت کا دعویٰ کرتی تھیں۔ اُن میں ایک اسٹوڈنٹ تھی اور دوسری ہوٹل کی ریسیپشنسٹ۔ ایک کی آنکھیں خُوب صورت تھیں، دوسری کی مسکراہٹ۔‘‘
’’ان دونوں کو ایک دوسری کا پتا تو نہیں چل گیا تھا؟‘‘میرے سوال پربَڈی نےسرسری اندازمیں کہا۔’’ایک دوسرے کاپتا، مَیں تو ان دونوں کو اکٹھے ڈنر پر لے جایا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ وہ بھی مجھے ڈیٹ پر لے کر گئی تھیں۔‘‘’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘مَیں نے بےیقینی سے کہا۔’’جب تک آپ وعدے وعید نہیں کرلیتے، کمٹمنٹ نہیں کرتے، محبّت کا اقرار نہیں کرلیتے، تب تک لڑکیاں سب گوارا کرلیتی ہیں۔ اِدھر آپ نے اُلفت کا اظہار کیا، اُدھر آپ بندھ گئے۔‘‘ مَیں ہمہ تن گوش تھا۔ ’’ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے اُن میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ سو، مَیں نے اساتذہ کا ایک کُلیہ آزمایا۔ اس سے ثابت ہوجاتا تھا کہ کون سی لڑکی مجھ سے کتنی مخلص ہے۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘میرا اشتیاق فزوں تر تھا۔’’ایک شام مَیں نے ان دونوں کو بہت غم گین، اداس شکل بناتے ہوئے بتایا کہ مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔
مَیں نے اُنھیں بتا رکھا تھا کہ میرا مستقبل خاصا تاب ناک ہے۔ اب جو مَیں نے اُنھیں یہ بتایا کہ مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا ہے، تو دونوں کے چہرے بجھ گئے۔ مَیں نے اُنھیں دوسری خبر یہ سنائی کہ میرے پاس پیسے بھی ختم ہورہے ہیں۔ شاید مجھے قرض کی ضرورت پڑجائے۔ یہ سُن کر اُن میں سے بلونڈ مجھ سے نظریں چرانے لگی، جب کہ سبز آنکھوں والی کے چہرے پر ہم دردی اُبھر آئی۔ دوچار روز میں اُن دونوں کی اصلیت کُھل کر سامنے آگئی۔ بلونڈ مجھ سے کترانے لگی اور سبز آنکھوں والی میرے لیے، میرے طلب کرنے سے پہلے، پیسے لے کر آگئی۔‘‘
بَڈی کی گفت گو میں قصّہ گوؤں والی چاشنی تھی۔ ’’یوں آپ کا کام آسان ہوگیا۔ یقینا آپ نے سبز آنکھوں والی کا انتخاب کرلیاہوگا۔‘‘بَڈی نے انکشاف کیا۔’’مَیں نے بلونڈ کا انتخاب کرلیا۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ مجھے دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا گیا ہے۔ مَیں سمجھ گیا تھا کہ سبز آنکھوں والی مجھ سے مخلص ہے اور آیندہ وہ مجھ سے باقاعدہ اور سنجیدہ قِسم کے عشق میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ مَیں اچھا وقت گزارنا چاہتا تھا، عشق کے ایسے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا، جس سے جان چُھڑانی مشکل ہوجاتی۔ اس سےپہلےکہ اُسےکوئی بڑا صدمہ ہوتا، مَیں نے اُسےخدا حافظ کہہ دیا۔‘‘مَیں دَم بہ خود بَڈی کو دیکھ رہا تھا۔
……٭٭……
ابتدائی ملاقاتوں ہی میں بَڈی نے مجھے فخریہ انداز میں تصویروں کے کئی البم دکھائے تھے۔ اُن میں وہ درجنوں سے تجاوز کرتی مختلف رنگ رُوپ کی دل کش و حسین، واجبی صُورت رکھنے والی، مختلف عُمروں، رنگ ونسل کی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ لگاوٹ سے کھڑے، بیٹھےاور چلتے دکھائی دیتےتھے۔ ان تصاویر سے بَڈی کا اُن خواتین سے قرب واضح ہوتا تھا۔ وہ رسمی نوعیت کی تصاویر نہ تھیں بلکہ اُن میں باہمی شیفتگی، رومان اور فلرٹ اُبل اُبل پڑتے تھے۔ اُن میں سے بیش تر تصاویر اُن کے لاس ویگاس میں گزرے برسوں کی تھیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بَڈی جھوٹ کم ہی بولتے تھے، تاہم ضرورت پڑنے پر کسی معاملے میں مصلحتاً خاموش ضرور ہوجاتے تھے۔ ’’آسٹریا میں مجھے عورت کو بہت قریب سے دیکھنے، اُس کی فطرت کو سمجھنے کا موقع ملا۔ مَیں نوجوان تھا، ہمّت تھی، تجسّس تھا۔ پاکستان سے گیا تھا، سب کچھ نیا نیا تھا۔ مَیں ایک تازہ اورمختلف نظر سے یورپ کو دیکھتا تھا، بغور اور قریب سے دیکھتا تھا۔ وہاں کی عورت بے باک اور پرُاعتماد تھی، مصلحت کوش نہ تھی، قدامت پرستی سے روایت شکنی کے مراحل طے ہورہے تھے، سو جلد کُھل جاتی تھی۔
وہ مجھے پرُاسرار ہندوستان کا ایک چارمنگ، ماڈرن لڑکا سمجھتی تھی۔ رنگ کی بنیاد پر تعصب باقی تھا۔ اُس کا مَیں نے بہت فائدہ اٹھایا۔‘‘بَڈی نے مسکرا کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور میری آنکھوں میں سوال پڑھتے ہوئے بولے۔’’جو لڑکی میری جانب متوجّہ نہ ہوتی تھی، مَیں منہ بسورتے ہوئے اُسے کہتاکہ بےشک مَیں برآؤن ہوں، لیکن آخر انسان ہی ہوں۔‘‘ ’’یہ الفاظ اُس کی دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہوتے تھے، عموماً وہ مائل بہ کرم ہو ہی جاتی تھی۔ اِس میں اُس کا جذبۂ اُلفت کار فرما نہ ہوتا تھا بلکہ یہ خواہش اُسے آمادئہ کار کرتی کہ اُسے بےتعصب اور روشن خیال سمجھا جائے۔‘‘بَڈی نے انگریزی ملی سادہ اردو میں اس مفہوم کے الفاظ کہے تو اُن کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
’’مَیں نے اپنی رومانی مہم جوئیوں میں جوچند اسباق سیکھے، اُن میں سے ایک سبق یہ بھی تھا کہ اگر ایک اکیلا خوب رُو مرد کلب میں داخل ہو تو گنتی کی چند عورتیں اُس کی جانب متوجّہ ہوں گی، البتہ اگر اُسی مرد کے ساتھ دو تین لڑکیاں ہوں، تو زیادہ عورتیں اُس کی جانب متوجہ ہو جائیں گی۔ اِس امر میں اُس مرد کی کشش کم، اس کے ساتھ والی لڑکیوں سے مقابلے اورموازنے کی خواہش نسبتاًبڑھ کر ہوگی۔ یہ نسائی فطرت ہے کہ عورت اپنے سامنے کی عورت کے لباس اور آرائش کو تنقیدی اورجائزے کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
وہ مرد جن کے ساتھ عورتیں ہوتی ہیں، دیگر عورتوں کو اپنی جانب جلد متوجّہ کرلیتے ہیں۔ مَیں جب ویانا اور لاس ویگاس کے کسی کلب میں اکیلا جاتا تھا۔ تو کم توجہ حاصل کرتا تھا۔ اس کے برعکس جب میرے ساتھ میری دوست لڑکیاں ہوتی تھیں یا مجھ اکیلے کے کلب میں داخل ہونے پر شناسا لڑکیاں میری جانب لپک کرآتی تھیں، تو مَیں اجنبی عورتوں کی آنکھوں اور حرکات وسکنات میں اپنے لیے فوری اور زیادہ توجّہ پڑھ لیتا تھا۔‘‘
آسٹریاالپس پہاڑی سلسلے کے یخ بستہ، ٹھٹھرتے سایوں میں لیٹا تھا۔ کوہ ہائے الپس مُلک کے ساٹھ فی صد سے زیادہ رقبے پر سربلند تھے۔ خنک اور سُرمئی بادلوں، دھند میں لپٹے خطّوں کے لوگ ایشیائی و افریقی گرم جوشی سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے میں زندگی میں حرارت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی ذرائع پیدا کیے جاتے ہیں، درونِ خانہ پارٹیاں اور ہلا گلاوغیرہ۔ بَڈی اُس سلسلۂ روزگار سے وابستہ ہوچکے تھے، جہاں نہ صرف یہ ذرائع خُوب میسر ہوتے ہیں بلکہ ان کا اہتمام کرنا بھی فرائض میں شامل ہوتا ہے۔’’تعلق قائم کرنا آسان ہوتا ہے، اُسے توڑنا بہت مشکل۔ عورت اور مرد کے باہمی تعلق میں تو یہ اوربھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں دوستی وقتی شغل سمجھ کر کرتے ہیں۔ جب وہ اس دوستی کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تعلق سادہ دوستی سے زیادہ بڑھ چکا ہے، زیادہ جذباتی ہوگیا ہے۔ مَیں نے کبھی کسی تعلق کو اِس حدتک بڑھنے ہی نہیں دیا کہ اُسے ختم کرنا تکلیف دہ ہو۔ ویسے بھی مَیں نے تعلق ختم نہیں کیے۔ میرادوستی یا شناسائی کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔‘‘
بَڈی قدیم اور بلند درختوں میں گھِری خاموش سڑک پر واقع بنگلے کی بالائی منزل کے ٹیرس پر بیٹھے جب اپنے تجربات بیان کررہے ہوتے، تو مَیں چشمِ تصوّر سے بارش میں بھیگی سُرخ اینٹوں والی عمارات، سُرمئی ماحول میں قدیم محلات کےاندرآنکھیں چندھیاتے شان دار فانوسوں، مخصوص پتھروں کی چنائی سے بنی گلیوں، سڑکوں، سردیوں کی بارشوں میں ریستورانوں سے اُٹھتی کافی کی خوشبوئوں، پولکا ڈاٹس والےفراکوں، دھاری دار پتلونوں اوراُنھیں سنبھالتے گیلس والےمَردو خواتیں، سیاحوں کے لیے نمائشی بگھیوں اور خنکی میں ہنہناتے بھاپ چھوڑتے گھوڑوں والے دَور کے ویانا کو دیکھ رہا ہوتا۔
’’انسان کو کوئی نئی آزادی یا نیا اختیار ملتا ہے تو وہ اُسےپوری طرح برتتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کسی شہرکے ممنوعہ علاقے کے دروازے عوام کے لیے کھول دیےجائیں، تو وہ وہاں بارہا جاتے ہیں۔ لوگ دیکھنا چاہتےہیں کہ وہاں کیا بھید تھا۔ پھرچند روز بعد وہاں دورہ کرنے والے لوگوں میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ ایک وقت آتاہے کہ وہاں آمدورفت کسی بھی عوامی مقام کے معمول کے برابر ہی ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت اختیار کی بھی ہے، انسان کو نیا اختیار ملتا ہے، جیسا کہ ہندوستانیوں کو راج دَور کے کلبز میں جانے کا حق ملا تھا، توابتدائی دِنوں میں آمدورفت غیر معمولی ہوتی تھی، ہرہندوستانی ممبر اس حق یا اختیار کا فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔
اِسی طرح جب مَیں ویانا گیا تو یورپ میں عورت کو تازہ تازہ آزادی ملی تھی۔ وہ بلاتامل ایک سے زیادہ پارٹنر رکھ سکتی تھی، بلاروک ٹوک بِکنی پہن کر ساحلِ سمندر جا سکتی تھی اور بغیر شادی کے تعلق قائم کرسکتی تھی۔ اگرچہ پہلے بھی بہت کچھ ہوتا تھا، مگر وہ چُھپ چھپا کر ہوتا تھا۔ یہ وہی دَور تھا، جب آزاد ہپی تحریک زور پکڑ رہی تھی، عورتیں بیچ چوراہے اپنے ملبوسات نذرِآتش کررہی تھیں، اسکینڈے نیویا سے یورپ میں آزاد ساحلوں کا آغاز ہوچُکا تھا، سو عورتیں اس آزادی کا لُطف اُٹھانا چاہتی تھیں۔
ہزاروں برس کی پابندیوں کے بعدعورتوں کو مَن مانی کی اجازت مل چُکی تھی، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ اپنی یہ آزادی چھین چُکی تھیں۔ ایسے میں وہ ہر جسمانی و نفسیاتی تجربہ کرنا چاہتی تھیں۔‘‘ایک رات طفیل روڈ پر واقع منظّم ادارے میں واقع اپنے دفتر سے پیدل گھر واپسی پر وہ یہ فلسفہ بیان کررہے تھے۔ یہ نوّے کی دہائی کا وسط تھا اور وہ ذہنی طور پر ساٹھ کی دہائی کی زندگی کو یاد کررہے تھے۔’’آج اس طرح کی کوئی مثال ہے؟‘‘ مَیں نے دل چسپی ظاہرکی تو بَڈی نے سڑک پار کرتے ہوئے بے اختیار کہا، ’’طلاق۔‘‘ ’’طلاق؟‘‘ مَیں نے یک لفظی سوال کیا، تو بَڈی بولے۔’’جدید دَور میں طلاق قابلِ اعتراض شے نہیں رہی۔
شوہر جو فرائض پورےکرتا تھا، گھر، آمدنی، اولاد کی تعلیم، علاج کی سہولتوں کا انتظام، ویلفیئر اسٹیٹ میں وہی فرائض ریاست پورے کررہی ہے۔ مرد پر عورت کا انحصار کم ہورہا ہے۔ سوؒ، عورت کو علیحدہ ہونے میں کوئی امر مانع نہیں۔ تم دیکھنا، وقت گزرنے کےساتھ مغرب میں عورتیں طلاق کا حق استعمال کرنے میں مَردوں سے بڑھ جائیں گی۔ وہ اپنے حقِ علیحدگی کو خُوب استعمال کریں گی۔ چند دہائیوں میں جب وہ اس حق کو خوب استعمال کرچُکی ہوں گی تب عورتوں کا وفور اور جذبہ نارمل ہوجائے گا۔‘‘
کئی برسوں بعد بَڈی کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ بَڈی عام زندگی، سیاست، بین الاقوامی معاملات وغیرہ میں بنیادی سطح کی معلومات رکھتے تھے۔ جہاں معاملہ عورت، مرد کے مابین تعلق، اُس کےمحرّکات اور پس پردہ کارفرما نفسیات کا آتا، تو وہاں اُن کی مہارت کاثانی نہ ہوتا۔ قصّہ مختصر، آسٹریا میں بَڈی نے ہر رنگ کا تجربہ کیا، ہر قسم کے لوگوں سے ان کا واسطہ رہا، بقول اُن کے وہ ایک ’’وائلڈ‘‘ زمانہ تھا۔ ’’ایشیا اور افریقا کے امیر خاندانوں کی لڑکیاں یورپ تعلیم حاصل کرنےجاتی تھیں اور یَک دم وائلڈ ہوجاتی تھیں۔
وہ مقامی گوریوں کے برعکس رومانی کمٹ منٹ کی بھی ضد نہیں رکھتی تھیں۔ یوں ہی جیسے ہمارے ہاں قصبات سے میٹروپولیٹن شہر کے گرلز ہاسٹل میں آنے والی لڑکیاں عام طور پر زیادہ متجسّس اور تجربات کی خواہاں ہوتی ہیں۔‘‘ بَڈی نسوانی نفسیات و میلانات پرکسی ماہر استاد کی طرح بے تکان بولتے تھے۔ ایسے میں وہ بھول جاتے تھے کہ ایسی گفت گو پرُلطف اور دل چسپ تو ہوسکتی ہے، مگر مخاطب کے سامنے اُن کی لاابالی، سیماب صفت اور ہرجائی شخصیت کو برہنہ کردیتی ہے۔ (جاری ہے)