برصغیر پاک وہند میں بننے والی فلموں میں موسیقی ونغمات کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نغماتی فلموں کو ہمیشہ عوامی حلقوں کی جانب سے غیر معمولی پذیرائی ملتی رہی ہے، اسی سبب مقبولیت حاصل کرنے والے نغمات کی استھائی سے بول چن کر انہیں فلم کے عنوان کے طور پر منتخب کرنے کی روایت بھی نغماتی فلموں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہر عہد میں رائج و رواں رہی۔ پاکستان میں بننے والی ایسی فلموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے کہ جن کے مقبول گیتوں کی استھائی سے فلم سازوں نے اپنی فلموں کے لیے عنوانات کاچنائو کیا۔
سوشل فلموں کے نہایت ایکسپرٹ فلم ساز ایس ایم یوسف نے 1962ء میں جب فلم ’’اولاد‘‘ بنائی تو اس کے لیے خُوب صورت نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے تھے اور عمدہ و دل کش دھنوں سے سنوارا تھا ان نغمات کو موسیقار اے حمید نے اولاد، باکس آفس پر ایک گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی، جس کے تمام نغمات بے حد مقبول ہوئے تھے، ’’تم ملے پیار ملا‘‘،’’ اب کوئی ارمان‘‘،’’شکریہ آپ کا‘‘، ’’یہ پیار ہے احسان نہیں‘‘ یہ گیت کی استھائی تھی، جس سے ایس ایم یوسف کے فرزند ہدایت کار اقبال یوسف نے 1969ء میں بنائی جانے والی اپنی فلم کے لیے’’تم ملے پیار ملا‘‘ ان بولوں کو بہ طور عنوان منتخب کیا۔ اور کام یاب میوزیکل فلم بنائی۔ ’’تم ملے پیار ملا‘‘ ہی وہ فلم تھی، جس کی تکمیل کے دوران اداکار محمد علی اور زیبا ایک دوسرے کے حقیقی جیون ساتھی بنے۔
1963ء میں قدیر غوری نے خُوب صورت سوشل گھریلو فلم ’’دامن‘‘ پیش کی، جس نے باکس آفس پر گولڈن جوبلی ’’سنگ میل‘‘ عبور کیا۔ ’’فلم کے نغمات حمایت علی شاعر نے تخلیق کیے تھے اور ان نغمات کو موسیقی کو پیرہن دیا تھا موسیقار خلیل احمد نے۔ ’’دامن‘‘ کے متعدد ہٹ نغمات میں سرفہرست فلم کا تھیم سانگ تھا، جس کے بول تھے’’نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکوگے‘‘۔ ’’دامن‘‘ صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی کی بہ طور ہیرو ہیروئن واحد گولڈن جوبلی فلم تھی۔ اس کے تھیم سانگ سے 1975ء میں ہدایت کار نذر شباب نے اپنی سوشل مزاحیہ فلم ’’نہ چھڑا سکو گے دامن‘‘ کا عنوان اخذ کیا، لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔
اس فلم کے ہیرو رنگیلا تھے اور صاعقہ ان کی ہیروئن تھیں۔ 1966ء کی ریلیز فلم ساز وحید مراد اور بریلینٹ فلم میکر پرویز ملک کی مشترکہ کاوش ’’ارمان‘‘ جس نے پاکستان میں باکس آفس پر پلاٹینم جوبلی کی استطلاح کو نافذ کیا۔ سہیل رعنا کی موسیقی سے سجے فلم کے تمام نغمات نے مقبولیت اور پسندیدگی کی نئی تاریخ رقم کی۔ ان شہرئہ آفاق گیتوں میں فلم کا تھیم سانگ بھی شامل تھا، جس کی استھائی تھی’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم ، تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘‘۔
اس استھائی میں سے ہدایت کار اے ایچ صدیقی نے اپنی فلم کے لیے ’’اکیلے نہ جانا‘‘ کے بولوں پر مشتمل عنوان چُنا۔ ’’اکیلے نہ جانا، کراچی کی پروڈکشن تھی ، جس کے ہیرو محمد علی اور ہیروئن صوفیہ بانو تھیں۔ فلم کا اسکرپٹ محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد علی نے تحریر کیا تھا، لیکن اکیلے نہ جانا، فلم ویورز کو قطعاً متاثر نہ کر سکی اور ناکامی سے دوچار ہوئی۔
فلم کا سن ریلیز 1966ء تھا۔1966ء ہی میں پاکستانی سینما کے معروف فلم ڈائریکٹر شباب کیرانوی کی خُوب صورت فلم ’’آئینہ‘‘ منظر عام پرآئی۔ فلم کے ہیرو محمد علی اور ہیروئن دیبا تھیں۔ اس فلم کو لاہور میں شباب کیرانوی نے اپنے ڈسٹری بیوشن آفس کی بنیاد رکھتے ہوئے خود ریلیز کیا تھا اوراس کی آمدنی سے شباب گروپ کو زبردست معاشی استحکام ملا تھا۔ فلم کے دل کش گیتوں میں ایک نمایاں گیت ’’تھیم سانگ‘‘ تھا، جس کے بول تھے ’’تم ہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘‘ یہ گیت الگ الگ مسعود رانا نے محمد علی کے لیے اور آئرین پروین نے دیبا کے لیے گایا تھا۔
یہ دل کش گیت آج بھی سُننے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ اس گیت کے مکھڑے سے ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ کے بول لےکر شباب کیرانوی نے اپنی اولین کلر فلم کا عنوان’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ تجویز کیا۔ آئینہ کی طرح اس فلم کی ہیروئن بھی دیبا تھیں، لیکن ہیرو وحید مراد تھے۔ ان کے ساتھ روزینہ کی حیثیت بھی مرکزی تھی۔ اتنی بھرپور کاسٹ بہترین بینر اور بلیک اینڈ وہائٹ کے دور میں کلر ٹیکنالوجی پر تیار کردہ یہ فلم عوام کو متاثر نہ کرسکی اور مکمل ناکامی سے دوچار ہوئی۔
یہ فلم 1969ء میں منظرعام پرآئی تھی۔ ہدایت کار رضا میر نے پاکستانی سینما کو ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کے عنوان سے ایک قابل فخر ہدایت کار فلم دی۔ جوانتہائی جان دار اور اوریجنل کہانی لافانی میوزک اور اعلیٰ فوٹو گرافی کے حوالے سے آج بھی بے مثل گردانی جاتی ہے۔ یہ فلم جس قدر معیاری تھی، اس اعتبار سے تو اسے پلاٹینم جوبلی ہونا چاہیے تھا، مگر یہ محض سلور جوبلی ہٹ ثابت ہوسکی۔ یُوں تو نثاربزمی کے لافانی میوزک نورجہاں، مجیب عالم اور نسیم بیگم کے سُریلے آہنگ سے سجے فلم کے تمام گیت لازوال تھے،لیکن مہدی حسن کا گایا گیت’’دل دِیا درد لیا ، آنکھ میں آنسو آئے‘‘نہایت انمول اور یادگار تھا۔
اس گیت کے مکھڑے سے ہدایت کار کے خورشید نے 1968ء میں بنائی جانے والی فلم کے لیے ’’دِل دِیا دَرد لِیا‘‘ عنوان چُنا۔ فلم ’’دل دیا درد لیا‘‘ کی کاسٹ میں محمد علی، زیبا، غزالہ ، مسعود اختر اور علائو الدین شامل تھے۔ یہ ایک اچھی فلم تھی، لیکن عوامی توقعات پر پوری نہ اُتر سکی۔1967ء میں ہدایت کار حسن طارق کی بہترین گھریلو ڈراما مووی دیور بھابھی منظر عام پر آئی اور ہر خاص و عام سے پسندیدگی کی سند لےکر ’’گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ ماسٹر عنایت کے میوزک سے سجے فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے اس فلم کے بیش تر گیت بے پناہ مقبول عام ہوئے، جن میں میڈم نورجہاں کا گایا گیت ’’میرا گھر میری جنت وہ میرا آشیاں‘‘ بھی خُوب مقبول ہوا ۔
اس گیت کے مکھڑے ہی سے ہدایت کار حسن طارق نے اپنے اگلے پروجیکٹ کے لیے’’میراگھر میری جنت‘‘ عنوان کا چنائو کیا اور ایک بہت عمدہ فلم بنائی، جس کی کہانی خاصی جان دار تھی۔ تاہم یہ فلم ایوریج بزنس حاصل کر سکی۔ 1969ء میں ہدایت کار قمر زیدی کی خُوب صورت نغماتی فلم ’’سالگرہ ‘‘ منظر عام پرآئی، تو ناشاد کی معرکتہ آلارا دُھنوں پر مبنی گیتوں اور شمیم آرا کی بے مثل کردار نگاری فلم کوگولڈن جوبلی کے اعزاز سے ہمکنار کیا۔
فلم کے لازوال گیتوں میں ایک گیت کے بول تھے ’’میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ‘‘ اس گیت کے خالق تھے شیون رضوی، جب انہوں نے ہدایت کار بننے کا فیصلہ کیا، تو اسی گیت کے مکھڑے سے ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ اپنی فلم کا عنوان تجویز کیا اور انہوں نے جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے،