کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے سپریم کورٹ کابڑا فیصلہ آگیا ہے،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا یہ بدقسمتی سے وہ فیصلہ تھا جو پاکستان میں ہر بچہ بھی جب سے بنچ بنا ہے یہی کہہ رہا ہے کہ یہ فیصلہ آئے گا، یہ بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوا ہے،نئے الیکشن ملکی مسائل کا حل نہیں، ہم نے اپنا موقف بڑا واضح رکھا کہ فل بنچ ہونا چاہئے، عدلیہ پارلیمان کے ڈومین میں داخل ہورہی ہے، پارلیمان کے فیصلوں کو چیلنج کررہی ہے اس پر فیصلہ کررہی ہے، ضرورت یہ تھی کہ ایک بڑا بنچ ہوتا فل بنچ ہوتا ، وہ فیصلہ تاریخ بھی قبول کرتی پاکستان کے عوام بھی قبول کرتے، حالت یہ ہے کہ وکیل بنچ دیکھ کر بتادیتے ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا، عام آدمی بتادیتا ہے کہ فیصلہ یہ آئے گا، یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں عدالت پر اعتماد یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہر شخص ان معاملات پر speculation کرتا ہے، سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان کو چاہئے وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت توڑیں، اس کے بعد قومی اسمبلی کو برقرار رکھنے کا جواز ہی نہیں رہے گا، اس کے بعد آپ کو اور مجھے بھی کہنا پڑے گا کہ شہباز شریف خدا کیلئے آپ اس کو بھی توڑ دیں اور نیا الیکشن کروائیں، خزانے کی چابی عمران خان کے پاس ہے، سینئر صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ عمران خان کو یقینی طور پرا ٓج بہت بڑی جیت ملی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان ابھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت توڑنے جارہے ہیں، پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ اپنی جماعت کو بھی سیاسی فائدہ پہنچائیں گے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قراردیا گیا ہے، دی نیوز میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق ن لیگ کو دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے اس لیے وہ اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کررہی ہے،اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ نواز شریف عوام اور میڈیا کے ساتھ اپنی رابطہ کاری دوبارہ شروع کریں۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ایک طرف اتحادی حکومت سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر واضح طور پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے اندر سے چیف جسٹس پر ججز کی تعیناتی سے متعلق دباؤ بڑھ رہا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فائز عیسیٰ جنہیں اگلا چیف جسٹس بننا ہے انہوں نے ججز کی تعیناتی سے متعلق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے اور جوڈیشل کمیشن کو اس حوالے سے خط لکھ دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام آج شا ہ زیب خانزادہ کیساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج موقع تھا کہ سپریم کورٹ اپنی ساکھ بحال کرتا، عوام کا عدل کے نظام پر جو اعتماد ہے اسے بھی بحال کرتا، فیصلے کی بات نہیں فیصلے جومرضی آئے لیکن جس طرح سے فیصلہ ہوا، اگر یہی فیصلہ فل بنچ سے آتا اس کی ایک حیثیت ہوتی، کیونکہ اس فیصلہ نے جو اس سے پہلے فیصلہ آیا تھا اس کی مکمل نفی کی ہے، جس اصول پر وہ فیصلہ ہوا اس اصول کی بھی نفی کی ہے،ہمارا مینڈیٹ ہے کہ 17اگست 2023ء تک ملک میں حکومت کریں ،اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی طریقہ ہے آئینی ہٹانے کا تو سو بسم اللہ، آج ملک کے مسائل کا حل الیکشن میں نہیں ہے، ملک کے مسائل کا حل معیشت کو استحکام دینے میں ہے، یہ تماشہ جو عدالتوں میں لگا ہے اس نے مزید انتشار پیدا کیا ہے، آج ہم سب کو مل کر ملک کو استحکام دینا ہے چاہے وہ جیوڈیشری ہو، پارلیمنٹ ہو، فوج ہو، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک کے معاملات کا احساس کریں، ملکی مسائل ایک منتخب حکومت ہی حل کرسکتی ہے، آج الیکشن کسی چیز کا حل نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اکتوبر کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے، الیکشن تو جب حکومت اور اتحادی فیصلہ کریں گے کہ ہمیں اسمبلی تحلیل کرنی ہے اس وقت ہوگا، لیکن جو مجھے علم ہے کہ ابھی تک یہی فیصلہ ہے کہ حکومت اپنی مدت انشاء اللہ پوری کرے گی۔شاہد خاقان عباسی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ یقیناً حکومت بنانا مشکل فیصلہ تھا لیکن وہ ملک کے مفاد میں ہو، سیاسی مفاد تو یہ تھا کہ عمران خان کو چلنے دیتے یا فوری الیکشن میں جاتے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ملک سات مہینے کے نگراں سیٹ اپ کا متحمل ہوسکتا تھا، جس نہج پر ملک پہنچ چکا تھا آپ چند ہفتے میں ڈیفالٹ کرجاتے اور ہماری حالت سری لنکا والی ہوتی، آج ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ، آج اگر ق لیگ کو پنجاب حکومت ملی ہے آئین کے اندر رہ کر کام کرے، تمام حکومتیں 17اگست تک کام کریں اس کے بعد الیکشن میں جائیں، آج یہی ڈکٹیشن ہے عوام کے مینڈیٹ کی اور یہی طریقہ ہے ملک کی معیشت کو استحکام دینے کا۔ شاہد خاقان عباسی نے رانا ثناء اللہ کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے آئین کی بات کی ہے، اگر غیرآئینی عمل سے حکومت چلائیں گے تو اس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے، آج ایک موقع ہے سب کے پاس حکومت ہے حکومت کریں، عوام کو اپنی حکومت کی کارکردگی پر متاثر کریں اس کے بعد الیکشن میں جائیں۔ ہم سب مل کر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ملک کو استحکام دیں تاکہ معیشت آگے بڑھ پائے۔ چیلنجز کسی نے تو قبول کرنے ہیں ہم نے کیے ہیں، ہم نے ملک کے مفاد میں اپنے سیاسی مفاد کی قیمت ادا کی ہے، ہم نے ملک کے مفاد کو ترجیح دی اور سیاسی مفاد کو پیچھے رکھا اس کی قیمت ہم نے ادا کی ہے شاید مزید بھی کرنا پڑے لیکن کسی نے تو ملک کو استحکام دینا ہے لیکن عمران خان نے چار سال جو معیشت اور اداروں کی تباہی کی ہے اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کرنے سے متعلق رولز موجود ہیں، آئین کو رولز کہتے ہیں، پہلے بھی پی ٹی آئی کی حکومت موجود رہی ہے سب سے مل کر ہم نے کام کیا ہے، ہم جب حکومت میں تھے تو تین صوبوں میں حکومت کسی اور کی تھی، آج بھی دو صوبوں میں ہمارے موافق حکومت ہے، سندھ اور بلوچستان میں کولیشن پارٹنرز ہمارے ساتھ ہیں، بات یہ ہے کہ آپ ملک میں انتشار چاہتے ہیں یا استحکام چاہتے ہیں، استحکام آئین سے ملے گا، تمام حکومتیں آئین میں رہ کر کام کریں ملک میں استحکام آجائے گا معیشت بہتر ہوجائے گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر وہ یہ شوق پورا کرنا چاہتے ہیں، اپنی حکومتیں تحلیل کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں، وفاق میں دو ہی طریقے ہیں وزیراعظم خود تحلیل کریں گے یا وہ عدم اعتماد کرلیں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، آج کارڈز کی بات نہیں ہے، کارڈز نے کبھی پاکستان کو کچھ نہیں دیا، آج جہاں پرا ٓپ کی معیشت ہے بڑی ذمہ داری کے ساتھ آپ نے کام کرنا ہے، وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت مدت پوری کرے اور ملک کو استحکام دے سکے، آپ 90دن کے الیکشن پراسس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالت کا کام ہے کہ اپنی ساکھ بحال کرے، یہ ایک اصول ہے انصاف کا کہ اگر مدعی انگلی کھڑی کردے تو آپ اپنے آپ کو ہٹالیتے ہیں، کیا اس سپریم کورٹ کے بارہ جو باقی جج ہیں ان میں یہ قابلیت اور اہلیت نہیں ہے کہ وہ کسی بات کا فیصلہ کرسکیں، یہ سوال آج لوگ کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم سے جھوٹ نہیں بولا جاتا، ہم سے جھوٹے بیانیہ نہیں بنائے جاتے، ہم سے پاکستان کے عوام کو دھوکا نہیں دیا جاتا، جھوٹے بیانیہ ہم سے نہیں بنیں گے، نہ ہم عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، حقائق عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، بیانیہ یا ٹوئٹ سے ملک نہیں چلتے۔